شکیب جلالی

شکیب جلالی
(مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ )

(1)

مجھے جب بھی شکیب جلالی کا خیال آتا ہے، ان کے خیال کے ساتھ ایک کتاب بھی یاد آجاتی ہے، ہے ایلوریز کی The Savage Cod – یہ کتاب، بہت دنوں پہلے مجھے مین را سے ملی تھی۔ ان دنوں مین را اپنے رسالے شعور کا ڈول ڈال چکے تھے اور ان کے ذہن میں ایسے کئی موضوع آئے تھے جن سے اردو دنیا بالعموم بے خبر تھی۔ ان موضوعات پر وہ شعور کے لیے مضامین لکھوانا چاہتے تھے۔ انھی میں سے ایک موضوع سلویا پلاتھ کی شاعری بھی تھی ۔ مین را نے سلویا پلاتھ کی شاعری کے مجموعے، ان کے ڈرامے ، ان کا ناول ، یہاں تک کہ ان کے گھر یلو خطوط کی اینتھولوجی (letters home) بھی خرید ڈالی اور اسی سلسلے میں وہ دل دوز کتاب The Savage God بھی ، کیونکہ اس میں خود کشی کے عمل کی تاریخ مختلف تہذیبی معاشروں میں غیر فطری اور تشدد آمیز موت سے متعلق تصورات، اس دائی تجربے کے نفسیاتی اور عمرانی مضمرات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اور پہلی کیس ہسٹری کے طور پر، اس کتاب کی شروعات سلویا پلاتھ کے سوانح سے کی گئی تھی ۔ یہ ایک اندوہ پر دور، بے چین کرنے والی اور کسی گہرے خواب کی طرح بار بار یاد آنے والی کتاب تھی۔ میں اسے شاید کبھی بھول نہ سکوں گا۔ اور جب جب یہ کتاب یاد آتی ہے، ذہن خود بخود چند جیتے جاگتے کرداروں کی طرف بھٹک جاتا
ہے۔ شکیب جلالی ، ثروت حسین ، سارہ شگفتہ!

(2)

شکیب جلالی کا کلام میں نے سب سے پہلے احمد ندیم قاسمی کے رسالے ‘فنون میں ، شکیب کے ایک مختصر سوائی نوٹ کے ساتھ دیکھا تھا۔ رسائل میں اس وقت تک ان کی بس کچھ ہی غزلیں شائع ہوئی تھیں اور ان غزلوں کے کئی شعر زباں زد ہو گئے تھے ، اس تاثر کے ساتھ کہ اردو لی کی غزل نے شکیب کے واسطے سے ایک نئے وجودی طرز احساس ، فطری اظہار کے ایک نئے اسلوب کی دریافت کی ہے۔ شکیب کی غزل نئی غزل کے دو معروف اور نمائندہ ترجمانوں، ناصر کاظمی اور ظفر اقبال ، دونوں سے بالکل مختلف تھی۔ ان کی حسیت کا آہنگ دھیما تھا، مگر سب سے الگ سنائی دیتا تھا اور اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا تھا۔ شعر یوں کہتے تھے جیسے اپنے آپ سے ہم کلام ہوں! جن شعروں میں کسی اور یا مخاطب کی موجودگی کا احساس نمایاں ہے، ان میں بھی شکیب کا لہجہ اور آہنگ کسی تبدیلی کا پتا نہیں دیتا۔

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں پر گروں
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے

۔۔۔۔۔

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

۔۔۔۔۔

آ کر گرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر

۔۔۔۔۔
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

وہیں پہ چل کے گرائیں گے بادباں اب تو
وہ دور ایک جزیرہ دکھائی دیتا ہے

 

نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

مرجھا کے کالی جھیل میں کرتے ہوئے بھی دیکھ
سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پر بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

۔۔۔۔۔۔۔

تو ہی برہنہ پا نہیں اس جلتی ریت پر
پیروں میں جو ہوا کے ہیں وہ آبلے بھی دیکھ

عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے، کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

اور پھر سب غزلوں سے الگ ، شکیب کی وہ غزل جو انھوں نے اپنی موت سے پہلے ایک مینٹل
ہاسپٹل میں کہی تھی۔

گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی
فسانہ جگرِ لخت لخت ایسا تھا

ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے
چیخ کے ٹوٹ گیا، دل کا سخت ایسا تھا

یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک
کوئی نہ سہہ سکے لہجہ کرخت ایسا تھا

ادھر سے گزرا تھا ملک سخن کا شہزادہ کوئی
نہ جان سکا ساز و رخت ایسا تھا

(3)

یہ آخری غزل جس مہیب تجربے کی عکاسی کرتی ہے اس کا سلسلہ موت تک جاتا ہے۔ یہاں شکیب جلالی نے موت کا ادراک ماضی کی ایک واردات کے طور پر کیا ہے ۔ گویا کہ تماشا بھی وہ خود ہیں اور آپ اپنے تماشائی بھی ۔ مندرجہ بالا اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ موت کا تجربہ شکیب جلالی کے لیے ایک آسیب ایک obsession کی حیثیت رکھتا تھا اور وہ طرح طرح سے اس تجربے کا ادراک کرتے تھے۔ آپ اپنے سائے پر گرتی ہوئی دیوار، چٹان پر اپنی پر چھائیں ثبت کر کے جا تا ہوا پرندہ ، جسم کی فصیل پر تازہ ہو گے چھینٹے ، ایک کراں تا کراں پھیلے ہوئے ریگزار کا خاموش اکیلا پن ، سفر کی تکان کو سہارا دینے والا ایک جزیرہ شاخ شجر پر زندگی کو نشان زد کر نے والا آخری پتا ، شام ڈھلے کالی جھیل میں مرجھا کے گرتا ہوا سورج، یہ تمام علائم اور بصری پیکر ہمارے احساسات کو ایک ہی سمت میں لے جاتے ہیں ۔ فنا اور نیستی کی سمت ۔ یہاں لفظوں سے صرف کسی ذہنی تجربے کی تعمیر نہیں ہوتی ، باطن کی آنکھ سے دکھائی دینے والا تماشا بھی سامنے آ جاتا ہے، آبی رنگوں سے بنی ہوئی کسی سیال سررئیلی پینٹنگ کی طرح ۔ مجھے یقین ہے کہ شکیب اگر شاعر نہ ہوتے تو مصور ہوتے اور رنگوں کی زبان میں باتیں کرتے ۔ لیکن ان کی گفتگو کا محور ، شاید اس وقت بھی ، یہی موت کا تجربہ ہوتا۔ بے شک ، موت کے تجربے کی گونج کسی نہ کسی سطح پر ہو حساس روح کو سنائی دیتی ہے اور اس فنائی ، شعریت آمیز اور ملال انگیز احساس کی پر کبھی نہ کبھی ہر تخلیقی ذہن کی سطح پر نمودار ہوتی ہے لیکن شکیب جلالی کے یہاں موت کے تجربے کا تواتر بہت معنی خیز ہے۔ وہ ہجوم میں اکیلے ہونے سے زیادہ اپنے آپ میں تنہا اور اکیلے تھے۔ ان کی غزل کا آہنگ اپنے بیشتر ہم عصروں سے زیادہ دھیما اور ست رفتار ہے۔ ان کے شعور میں اشتعال، برہمی اور اضطراب کی کیفیتیں کبھی اپنے ظہور کا اعلان نہیں کرتیں۔ تنہائی ، اداسی، بے کلی ، یہاں تک کہ موت کا ادراک بھی وہ ایسی سہولت کے ساتھ کرتے ہیں جیسے صبح کا اجالا دھیرے دھیرے پھیل رہا ہوں۔ یہ کیفیتیں بغیر کسی شور شرابے کے شکیب جلالی کے احساسات کا محاصرہ کر لیتی ہیں اور انھیں آگہی کی اس سطح تک لے جاتی ہیں جسے ہم ایک گہرے اور پائیدار وجودی تجربے کی سطح کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شکیب جلالی اپنے ہم عصروں میں وجودی تجربے اور طرز احساس کے سب سے نمایاں ترجمان تھے ۔ اس دور کے غزل گویوں میں کسی کے یہاں موت کے تجربے کو اس طرح کی مرکزیت حاصل نہیں جیسی کہ شکیب جلالی کی غزل میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ تجربہ ان کے مجموعی تخلیقی شعور کامحور، اس کی اساس کہا جا سکتا ہے۔ شکیب جلالی کے شعور کی تربیت جس ماحول میں ہوئی تھی اور جہاں انھوں نے سنجیدگی سے سوچنا اور زندگی کے آشوب کو محسوس کرنا سیکھا تھا، اس ماحول میں گریہ و ماتم کا چلن عام تھا۔ ایک روایتی متوسط طبقے کا مسلمان گھرانا، عزاداری کی تقریبات محرم اور چہلم کی مجلسیں ، امام بارگا ہیں، مسالمے، مقاصدے، سوز خوانی اور مرثیہ خوانی کی فضا، شکیب جلالی کے احساسات پر اس سب کا اثر انداز ہونا فطری تھا۔ شکیب جلالی کے ابتدائی کلام میں یہ تمام رنگ بہت گہرے ہیں۔ لیکن ان کی غزلیہ شاعری کے نمائندہ حصوں میں رسم پرستی اور روایت گزیدگی کا انداز قطعا نا پید ہے۔ شکیب جلالی کبھی بھی اپنی افسردگی اور اندوہ کا جشن برپا نہیں کرتے ۔ زندگی کے المیہ احساس کو کبھی بھی اس طرح سامنے نہیں لاتے جیسے کہ اس کی نمائش کر رہے ہوں۔ اداس کو کبھی celebrate نہیں کرتے ۔ جذبات کی گہری تربیت ،شعور کے غیر معمولی رچاؤ کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ کلیپ غم سے زیادہ تہذیب نم ” کے شاعر ہیں۔ زندگی کا المیہ احساس ان کے وجود کی سطح سے اس طرح نمودار ہوا ہے جیسے شاخ سبز پر نئے انکھوے پھوٹتے ہیں، لیکن شکیب نے اس درخت کو تراش خراش کے بعد ایک ذاتی شکل دی ہے۔ اس طرح کہ اس کا لینڈ سکیپ بھی بدل گیا ہے اور الگ سے پہچانا جاتا ہے۔ اردو غزل کی روایت میں موت کے تجربے سے غیر معمولی شغف شکیب جلالی کے پیش رو شا عرفانی کے یہاں بھی تھا۔ یہ صرف اتفاق کی بات ہے کہ شکیب جلالی اور فانی میں ہم وطنی کا رشتہ بھی ہے ۔ لیکن جہاں تک اس تجربے سے ان دونوں کی دل بستگی اور شغف کا تعلق ہے تو ہمیں فانی اور شکیب جلالی کے رویوں میں بنیادی نوعیت کے کچھ فرق اور امتیاز کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔ فانی کی پوری شخصیت میں غم پروری کا میلان نمایاں تھا۔ وہ زندہ رہنے سے شاید گھبرا چکے تھے ۔ گردو پیش سے اکتائے ہوئے ۔ کائنات کے کسی روشن تجر بے کسی دل فریب مظہر پر ان کی نظر بہت کم جاتی ہے۔ بیوہ عالم یا “یاسیات کے امام کا لقب ان کے ہم عصروں نے انھیں ان کی دائم و قائم افسردگی اور سوگواری کے باعث ہی دیا تھا۔ موت فانی کے یہاں نامرادوں کی مراد اور زندگی سے تھکے ہارے لوگوں کے لیے واحد دار الامان یا پناہ گاہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس لیے ان کے اشعار میں موت کا چہرہ اس طرح روشن نظر آتا ہے جیسے تختہ سیاہ پر کوئی سفید لکیر چمک رہی ہو۔ فانی کے برعکس شکیب جلالی کے یہاں موت زندگی کے منطقی انجام اور ان کے شاعرانہ تخیل کی ایک جولاں گاہ کے طور پر سامنے آتی ہے۔ شکیب جلالی، فانی کے برعکس ، موت سے نہ تو بے محابا شغف اور تعلق کا اظہار کرتے ہیں، نہ ہی اسے زندگی کے عام مسائل اور مصائب سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ موت ان کے یہاں عام انسانی دکھوں کا حل، آلام سے چھٹکارا حاصل کرنے کا وسیلہ محض نہیں ہے۔ وہ ، ایک طرح کی نیم فلسفیانہ سطح پر موت کو بھی اسی
طرح زندگی کو ۔ گویا کہ دونوں
ہستی کے معمول کا حصہ ہیں۔ اس لیے ملکیب جلالی کے لیے موت زندگی کے سفر کی آخری منزل پرانے کا چراغ نہیں بلکہ ایک شخصی اور وجودی سچائی ہے، ایک جبر ہے اور کاروبار زیست کے سلسلے کی ایک ایکی کڑی جو ہماری سانسوں کی زنجیر کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہے۔ موت کا تجربہ تشکیب جلالی کے شعور کانہ تو انتخاب ہے، نہ مجبوری ۔ یہ ایک طرح کی فطری سچائی ہے اور زندگی کے معنی و مفہوم تک رسائی کا ایک
خود کار وسیلہ۔ اس سلسلے میں شکیب جلالی کے کلیات سے کچھ اور شعر دیکھتے چلیں:

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

۔۔۔۔۔۔

خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں

۔۔۔۔۔۔

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس پر

۔۔۔۔۔۔

اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
زمیں پر پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی

۔۔۔۔۔
اک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیب
دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے

 

افسردگی اور اذیت کا یہ کیسا عجب احساس ہے جو زندگی کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ شکیب جلالی اس احساس کو طرح طرح کے رنگوں اور شکلوں میں دیکھتے ہیں اور ان کے اجتماع سے جو تصویر خانہ ترتیب پاتا ہے اس میں مرکزی تجربے کی حیثیت موت کو حاصل ہے۔ وجود سے عدم تک، بس ایک چراغ ہے جس کی روشنی ان کے شعروں میں پھیلتی اور سمٹتی رہتی ہے۔
شکیب جلالی کا کلیات (اشاعت 2004 ء ) ان کے بیٹے حسین اقدس کے زیر اہتمام مرتب ہوا ہے اور بہت سلیقے سے شائع کیا گیا ہے۔ کلیات پانچ سوا کیا نوے (591) صفحات پرمشتمل ہے اور اس میں غزلوں کے ساتھ ساتھ شکیب جلالی کی نظمیں ، قطعے، رباعیاں بھی یکجا کر دی گئی ہیں ۔ کلیات کے شروع میں شکیب جلالی کی شاعری پر کچھ مضامین بھی شامل ہیں۔ یہاں ان مضامین سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں تا کہ ہے اندازہ بھی ہو سکے کہ شکیب کی شاعری نے ایک ساتھ مختلف تاثرات اپنے پڑھنے والوں پر مرتب کیے تھے۔

احمد ندیم قاسمی کا خیال ہے کہ:
” وہ شکیب کی غزل کا سب سے نمایاں حسن اس کی باشعور وجدانیت ہے۔ ممکن ہے شعور د وجدان کی اس یکجائی پر بعض حضرات چونکلیں مگر اس کا کیا کیا جائے کہ شکیب نے شعوری تاثرات کو غزل میں منتقل کر کے نھیں وجدان کی طرح لطیف بنا دیا ہے۔”

” وہ شکیب ہی تھا جس نے غزل کو موضوع واظہار کے حوالے سے ایک متوازن جدت کا موڑ دیا۔ یوں وہ جدید غزل نگاروں کا قافلہ سالا رہے ۔“
(حوالہ ایضاً، ص 35)

شکیب جلالی کا شعری سرمایہ بہت مختصر ہے۔ لیکن ان مٹھی بھر غزلوں کے متن پر ، انفرادیت کا نقش مرتسم ہے لب و لہجے کا ایک نیا قرینہ اور انداز ”
(اسلوب احمد انصاری ، ص 55)

شکیب نہ ہمیں اپنے تجربات اور یادوں میں شریک ہونے اور ان کا محاسبہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور نہ کسی کی ہمدردی حاصل کرنے کا انھیں کوئی شوق ( ہے)۔ وہ بس مختلف سیاق و سباق میں اپنے تجربات کی نقش گری کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ انھیں کسی کی empathy در کار نہیں، نہ وہ اس کے آرزو مند ہیں، اور نہ اس کی عدم فراہمی اور عدم دستیابی کے شکوہ سنج ۔ یہ کہنا بھی صحیح نہ ہوگا کہ انھوں نے کوئی نگارخانہ سجایایا ترتیب دیا ہے۔ یہ غزلیں تو ایک اداس راگنی کے مختلف اجزا اور عناصر ہیں۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×