. غزل
ظاہر کی آنکھ سے تو وہ پردہ نشیں لگے
دل دیکھنے لگے تو وہ ہر دم یہیں لگے
ورنہ تو ایک بوجھ ہے تن پر لدا ہوا
سجدہ کرے تو پھر کہیں جا کر جبیں لگے
خوشبو ہو ماں کی ہر در و دیوار میں اگر
کچا مکاں بھی رشک ِ بہشت ِ بریں لگے
طائر اڑا تھا فکر کا تیرے حصول کو
پر آسمان سارے زمیں در زمیں لگے
پھینکی گئی تھیں جس جگہ ساری اداسیاں
قسمت! کہ ہم پھسل کے بالاخر وہیں لگے
دیکھا تھا ایک بار ہی لیکن نظر کے تیر
کچھ دل پہ کچھ جگر پہ کچھ اس کے قریں لگے
باتوں میں ان کی کیوں نہ ہو لاغر اثر کہ جب
لب وہ ہو جس پہ لفظِ گماں خود یقیں لگے
ظہیر لاغر