عبد الحلیم شرر
مولانا عبد الحلیم شرر کا نام ان کے تاریخی ناولوں کے لیے مشہور ہے۔ وہ عربی فارسی کے عالم تھے اور تاریخ اسلام سے خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ سیر و سیاحت کا شوق تھا۔ دنیا کے بہت سے اہم مقامات دیکھ چکے تھے۔ سفر کے دوران ان قدیم آثار کو بطور خاص دیکھا تھا اور احترام کی نظر سے دیکھا تھا جن سے اسلام کے عروج و زوال کی داستان وابستہ تھی۔ اس داستان کو رقم کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ عالم بھی تھے اور صاحب قلم بھی۔ یہ ارادہ پختہ ہو گیا جب ان کی نظر سے سر والٹر اسکاٹ کے تاریخی ناول گزرے۔ ان ناولوں پر تاریخی ناول ہونے کی تو محض تہمت تھی دراصل ان کے پیچھے اسلام کو بدنام اور عیسائیت کو نیک نام کرنے کی سازش کام کر رہی تھی۔ شرر نے اس سازش کا منہ توڑ جواب دینے کا تہیہ کرلیا۔ آخر کار ان کا زرخیز قلم حرکت میں آگیا اور بہت سے تاریخی ناول وجود ہیں آگئے۔
شرر کے تاریخی ناول بہت سے ہیں۔ ملک العزیز ورجتا “ اور ”شوقین ملکہ ” لکھ کر انھوں نے صلیبی معرکوں کی یاد تازہ کی۔ حسن انجلینا میں ترکوں کی فتح اور روسیوں کی شکست کا قصہ دہرایا۔ منصور موہنا میں سندھ کے انصاری خاندان کے واقعات پیش کیے۔ ” فردوس بریں میں حسن بن صباح کی ارضی جنت کی سیر کرائی۔ فلورا فلورنڈا میں ہسپانیہ کے عہد خلافت کے واقعات اور فتح اندلس” میں اپنین پر مسلمانوں کی فتح کے حالات قلمبند کیے۔ عزیز مصر میں بنی طولون کے زمانے کے واقعات تحریر کیے۔ “زوال بغداد ” میں مسلمانوں کی آپسی جنگ کے واقعات پیش کیے۔ یه فهرست مکمل نہیں۔ انھوں نے اور بہت سے ناول لکھے جو اس زمانے میں بہت شوق سے پڑھے گئے ۔ ان ناولوں کے لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ان کے اجداد کے کارنامے یاد دلا کر ان کے دلوں میں جوش پیدا کیا جائے۔ ممکن ہے وہ جاگ اٹھیں اور ان کا کارواں کسی منزل کی طرف جادہ پیا ہو جائے۔
تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ان تاریخی ناولوں کی کمزوریاں بہ آسانی نمایاں ہو جاتی ہیں۔ شرر بسیار نویسں بھی ہیں اور زود نویس بھی۔ مطلب یہ کہ انھوں نے بہت زیادہ لکھا اور قلم رو کے بغیر لکھا۔ اعلا درجے کی تخلیق بڑی کاوش اور بہت غور و فکر کا مطالبہ کرتی ہے۔ مولانا شرر کا یہ حال تھا کہ منصوبہ بنائے بغیر قلم اٹھا لیتے تھے ، لکھتے چلے جاتے تھے اور نظر ثانی کی زحمت گوارا نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے لکھ لکھ کے انبار لگا دیا اور فراق گورکھپوری کے لفظوں میں مٹی کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔
شرر کے ناولوں میں افراد کے نام تو تاریخی ہوتے ہیں مگر واقعات سب مصنف کے من گھڑت اور وہ بھی ناقابل یقین۔ “عزیز مصر میں احمد بن طولون والی مصر کے کردار کو ملاحظہ فرمائیے۔ یہ اپنے عہد کی بے مثال شخصیت تھی جس نے ایوان خلافت کی بنیادوں کو متزلزل کر دیا تھا مگر مولانا نے اس شخصیت کو محض بونا بنا کے رکھ دیا ہے اور بازاری لوگ اسے قتل کرنے کے لیے برچھے لیے ہوئے امیر کے محل میں گھس آتے ہیں۔ ایک خامی یہ کہ شرر کا ہیرو بالکل داستانی ہیرو کی طرح ہوتا ہے جو اکیلا سیکڑوں ہزاروں پر بھاری ہوتا ہے۔ اس کی شجاعت و جواں مردی پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آخر کار احساس ہوتا ہے کہ اس میں کچھ اصلیت نہیں۔ ناول ماہ ملک” میں دو نوجوان دشمن کے لشکر کو مار بھگاتے ہیں ۔ بقول حسینی ایسے سورماؤں پر رستم و سهراب لندهور بن ، سعدان مالک بن اژ در ، ایرج و تورج کا گمان گزرے تو کیا عجب ہے۔ یہاں جادو نہیں، ظلم نہیں ، جنات کی مدد نہیں مگر معر کے بالکل ویسے ہیں جو بوستان خیال“ اور ”داستان امیر حمزہ” میں نظر آتے ہیں۔ پروفیسر ڈاؤڈن نے سچ کہا تھا کہ تاریخی مضامین احتراز کرنا چاہیے۔
کے بیان میں ہر طرح کی خلاف واقعہ چیزوں سے
شرر کے معاشرتی ناول بھی اسی طرح ناکام ہیں جس طرح ان کے تاریخی ناول۔ دونوں پر ایک ہی الزام عائد ہوتا ہے کہ خیالی ہیں۔ حقیقت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ اہل نظر کہتے ہیں کہ تاریخی ناول لکھنے والا ماضی میں اس طرح کھو جاتا ہے کہ حال کی مرقع کشی اس کے بس کی بات نہیں رہتی۔ سر والٹرا سکاٹ انگریزی میں تاریخی ناول کے بانی ہیں لیکن جب انھوں نے معاشرتی ،دل کی وادی میں قدم رکھا تو بری طرح ناکام رہے۔ یہی حال مولانا شرر کا ہے۔ انھوں نے متعدد معاشرتی ناول لکھے۔ ان میں سے چند کے نام ہیں دلکش ، دلچسپ خوفناک محبت دربار حرام
پور آغا صادق بدر الفسا کی مصیبت۔ ان میں سے کوئی زندہ رہنے والا نہیں۔ شرر کے تمام تاریخی اور معاشرتی ناولوں میں صرف ایک تخلیق ایسی ہے جس کی دلکشی اتنے برس بعد آج بھی کم نہیں ہوئی۔ یہ ناول ” فردوس بریں” ہے۔ ہ آج بھی شوق سے پڑھا جاتا ہے اور یقین ہے کہ آئندہ بھی پڑھا جاتا رہے گا۔
فردوس برین
فراق گورکھپوری نے مولانا شرر کے ناولوں کو جو تعداد میں بہت زیادہ ہیں مٹی کا پہاڑ کہا ہے مگر اس کو خاک میں ایک کوہ نور بھی ہے جو تاب دار بیرے مگ کی طرح دمک رہا ہے۔ یہ فردوس بریں ہے۔ پلاٹ کردار نگاری مرقع کشی ، مکالمہ نویسی — ہر لحاظ سے ” فردوس بریں” کو ایک کامیاب ناول کیا جا سکتا ہے۔ اس میں فرقہ باطنیہ کی سازشوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس فرقے کے سرغنہ نے پہاڑوں کی اوٹ میں کسی پوشیدہ مقام پر ایک جنت ارضی یعنی دنیا میں جنت بنائی تھی۔ لوگوں کو بے ہوش کر کے اس مصنوعی جنت میں لے جایا جاتا تھا۔ وہاں یہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ اس کے بعد پھر انھیں حشیش پلا کر بے ہوش کر دیا جاتا تھا۔ ہوش آنے پر معلوم ہو تا تھا کہ جس دنیا سے گئے تھے دوبارہ اسی میں لوٹ آئے۔ دوبارہ جنت میں لے جانے کا لالچ دے کر ان سے بڑے بڑے لوگوں کو قتل کرا دیا جاتا تھا۔ اس ناول کے اہم کردار حسین ، زمرد، شیخ وجودی اور بلغان خاتون ہیں۔ حسین زمرد کے عشق میں گرفتار ہے۔ اسے فریب دیا جاتا ہے کہ زمرد اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ حشیش پلا کر اسے ارضی جنت میں لے جایا جاتا ہے۔ وہاں وہ زمرد کے وصل سے شاد کام ہوتا ہے۔ پھر بے ہوش کر کے اسے دنیا میں بھیج دیا جاتا ہے۔ دوبارہ جنت میں پہنچنے اور زمرہ کو پانے کا لالچ اسے شیخ وجودی کا حکم مانے یعنی پہلی بار اپنے حقیقی بچا امام نجم الدین نیشاپوری اور دوسری بار امام نصربن احمد کو قتل کرنے پر آمادہ کر دیتا ہے۔ آخر کار آنکھوں کی پٹی کھل جاتی ہے۔ وہ بلغان خاتون کی فوج کو ساتھ لے کر اس مصنوعی فردوس میں داخل ہوتا ہے۔ سخت خوں ریزی ہوتی ہے۔ آخر کار فرقہ باطنیہ کی یہ جھوٹی جنت بھی برباد کر دی جاتی ہے اور قلعہ التمونیہ
بھی۔
حسین اس ناول کا سب سے اہم کردار ہے۔ مصنف نے اس کردار کی تعمیر کا حق ادا کر دیا ہے۔ حالات کے مطابق یہ کردار ارتقا کے مختلف مرحلوں سے گزرتا ہے۔ عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اپنے عہد کی نامور ہستیوں کے قتل پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ان ہستیوں میں سے ایک اس کا حقیقی چچا ہے۔ فریب کا پردہ چاک ہو جاتا ہے اور حسین کی آنکھیں کھل جاتی ہیں تو وہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرتا ہے
اور اس فرقے کی بیخ کنی کا کارنامہ انجام دیتا ہے۔ زمرہ حسین ہے، دھن کی کچی ہے اور عشق کے امتحان میں کھری اثرقی ہے۔اس میں عورت کی عام کمزوریاں بھی ہیں مثلا نرم دل ہے لیکن وقت پڑنے پر دلیر
کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔ قزوین کا کو ہستانی راستہ طے کرنے سے گھبراتی ہے۔ پریوں کے نمودار ہونے کا خیال اسے خوف زدہ کر دیتا ہے لیکن دھن کی بچی ہے۔ ہر مصیبت کا سامنا کر کے بھائی کی قبر پر پہنچنا اور فاتحہ پڑھنا چاہتی ہے اور ایسا کر کے رہتی ہے۔ فردوس بریں پہنچنے پر اس کی آبرد خطرے میں ہے مگر وہ اپنی عصمت بهر حال بچالیتی ہے۔ وہی خط لکھ کر حسین کو بلغان خاتون کے پاس بھیجتی ہے اور فرقہ باطنیہ کو مٹادینے کا باعث بنتی ہے۔ بلغان خاتون مردانہ صفات رکھتی ہے۔ نڈر بھی ہے اور سفاک بھی۔ عمارت گری اور کشت و خون اس کی سرشت میں داخل ہے۔ اس کی دلیری کا یہ حال ہے که صرف پانچ سو سوار ساتھ لے کر قلعہ التمونیہ میں داخل ہو جاتی ہے اور ارضی فردوس کو برباد کر دیتی ہے۔ انتقام کا جذبہ اس پر اس قدر غالب ہے کہ باپ کا سوگ تک اسے یاد نہیں رہتا ہے۔ نسوانی خصائص سے وہ بالکل محروم ہے۔ شیخ شرف علی وجودی کا کردار سدا زندہ رہنے والا ہے۔ اس کی ذات بڑی پُراسرار ہے۔ عیاری زور بیان سخت گیری جو ایک سفاک فرقے کی قیادت کے لیے ضروری ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں۔ اس ناول میں سرشار کے دو ہنر پوری طرح نمایاں ہوتے ہیں۔ ایک تو مرقع کشی کا ہنر کہ جس منظر کو پیش کیا ہے اس کی جیتی جاگتی تصویر کھینچ دی ہے۔ دوسرے مکالمہ نگاری کی صلاحیت کہ ہر کردار کا باطن اس کے مکالموں سے عیاں ہو جاتا ہے۔ حسین اور یح وجودی کے درمیان جو بات چیت ہوتی ہے وہاں تو سرشار کا یہ ہنر معراج پر نظر آتا ہے۔ سرشار نے اسلامیات کا بہت توجہ سے مطالعہ کیا تھا اس لیے خوب جانتے تھے کہ علما کا طرز تکلم اور اندازِ استدلال کیا ہوتا ہے۔ اس واقفیت سے انھوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔ فردوس بریں کو شرر کا ایک کامیاب ناول قرار دیا جا سکتا ہے۔