عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری

عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری

 

عصمت چغتائی نے ادب کی دنیا میں قدم رکھا تو ایک نئی صبح طلوع ہو رہی تھی۔ رومانیت اپنی کشش کھو بیٹھی تھی اور ادیبوں میں حقیقت سے آنکھیں چار کرنے کی جرات پیدا ہو چلی تھی۔ تعلیم پھیل رہی تھی اور مغرب کا اثر گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ ۱۹۳۲ء میں دس افسانوں کا مجموعہ ”انگارے شایع ہوا تو اردو افسانے کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔ اس کے افسانوں میں پہلی بار زندگی کی تلخ حقیقتوں اور تکلیف دہ پہلوؤں کو بے نقاب کیا گیا تھا۔ ”انگارے“ کے افسانہ نگاروں نے بعض ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا تھا جنھیں اب تک ضابطہ اخلاق کے خلاف سمجھ کر قلم انداز کیا جاتا رہا تھا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد ترقی پسند تحریک کا آغاز ہو گیا جس نے حقیقت پسندی پر زور دیا دولت کی نابرابر تقسیم کے خلاف آواز اٹھائی ، مظلوم محنت کشوں کی حمایت کے لیے اشتراکیت کا پرچم بلند کیا۔ عصمت چغتائی ان حالات اور اس تحریک سے متاثر ہوئیں۔

افسانے کے موضوعات تلاش کرنے میں عصمت کو زیادہ سرگرداں ہونے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں ان کی تعلیم ہوئی تھی اور ہاسٹل کی زندگی سے ان کا واسطہ رہا تھا۔ مسلمان متوسط گھرانوں کی لڑکیاں ان کی ہم جماعت رہیں اور ان کے ساتھ رہنے اٹھنے بیٹھنے اور اس طرح انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ چنانچہ اس طبقے کی لڑکیاں اور لڑکے ان کے خواب ان کے مسائل، ان کی جنسی الجھنیں عصمت کے افسانوں کا موضوع قرار پائیں۔ کے حجاب اسماعیل، مجنوں گورکھپوری اور نیاز فتح پوری کے افسانے بہت توجہ سے پڑھے، انگریزی ادب کا مطالعہ کیا اور تخلیق کی سمت متعین ہو گئی۔ انھوں نے معمولی قسم کے بہت سے افسانے لکھے لیکن چھپوانے کے بجائے انھیں ضائع کر دیا۔
بہر حال یہ محنت ضائع نہیں ہوئی۔ اس نے مشق کا کام کیا۔
اپنے افسانوں کے لیے جس موضوع کا انھوں نے انتخاب کر لیا تھا اس پر آخر تک کاربند رہیں اور انھوں نے بعض بہت اچھے افسانے تخلیق کیے۔ “چوتھی کا جوڑا “اس کی عمدہ مثال ہے۔ متوسط مسلمان گھرانوں میں لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ والدین کے لیے ہمیشہ ہی ایک پریشان کن مسئلہ بنا رہا ہے۔ چوتھی کا جوڑا کی کبرا ایک سیدھی سادی لڑکی ہے جو گھر کی چار دیواری میں پلی بڑھی۔ بقول عصمت “نہ تو اس کی آنکھوں میں پریاں ناچیں نہ اس کے رخسار پر زلفیں پریشاں ہوئیں، نہ اس کے سینے میں طوفان اٹھے، نہ اس نے ساون کی گھٹاؤں سے مچل کر پریتم یا ساجن مانگے۔ وہ جھکی جھکی ، سہمی سمی جوانی جو نہ جانے کب دبے پاؤں اس پر رینگ آئی، ویسے ہی چُپ چاپ نہ جانے کدھر چل دی۔ میٹھا برس نمکین ہوا۔ اور پھر کڑوا بن گیا۔” جب مجھے ماموں نے اپنے بیٹے راحت کے ان کے یہاں ٹھہرنے کی اطلاع دی تو کبرا کی ماں اس طرح بوکھلا گئیں جیسے راحت برات لے کر آگیا ہو۔ وہ آیا تو تو طرح طرح اس کی ناز برداریاں کیں پھر بھی بات نہ بنی اور کبرا کی ماں جو سلائی کے فن میں طاق تھیں انھیں آخر کار اپنی بیٹی کا کفن سینا پڑا۔

 

جنس نگاری عصمت کا سب سے پسندیدہ موضوع ہے۔ خود ان کے الفاظ میں چٹ پٹے قسم کے واقعات کو مزہ لے لے کر بیان کرنے کا انھیں بے حد شوق ہے۔ اس پر وہ لعنت ملامت کا نشانہ بھی بنیں اور ان پر فحش نگاری کے الزام میں عدالتوں میں مقدمے بھی چلے۔” لحاف ” ان کا ایسا افسانہ ہے جس نے کسی زمانے میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ ایک کی عمر کے نواب صاحب اپنی بیوی کے بجائے نوجوان لڑکوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ بیگم جانے منتیں مانیں مرادیں مانگیں مگر نواب صاحب اپنے راستے پر چلتے رہے۔ آخر کار بیگم جان کی خادمہ رہو نے سہارا دیا اور انھیں گرتے گرتے سنبھال لیا۔ اس طرح وہ ہم جنسی میں جلا ہو گئیں۔ بھول بھلیاں رشتے کے بہن بھائیوں کے درمیان چُھپ چھپ کر ملنے اور محبت کرنے کے بارے میں ہے۔ ”قتل“ اور گیندا، عصمت کی بدنام کہا نیاں ہیں۔ لیکن عصمت کی کہانیاں ہی بدنام نہیں ، اپنی صاف گوئی اور بیبس کی تند لہجے تیکھے پن کے سبب خود عصمت بھی بدنام ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ منٹو کی طرح عصمت بھی سماج کے عیبوں کو آشکار کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان کا علاج کیا جاسکے۔ ایک جگہ لکھتی ہیں ”جب زخم میں مواد بھر جائے تو اس پر پٹیاں باندھنے سے بہتر ہے کہ نشتر لو اور جراحی شروع کردو۔”

ادب میں عریانی کے مسئلے پر عصمت نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ فرماتی ہیں آپ ادب کی عریانی سے لرز جاتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ادیب خود دنیا کی عریانی سے لرز اٹھا ہے اور وحشت کے مارے کانپ رہا ہے۔” یہ ایک اچھی علامت ہے۔ دنیا کی عریانی پر ادیب کا لرزہ براندام ہونا اسے آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنی تخلیقات میں اس کی ایسی تصویر کشی کرے کہ دوسروں پر بھی یہی کیفیت طاری ہو جائے۔ اسی طرح اس عریانی کو یخ و ئین سے اکھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے۔ اس لیے عصمت نے ایک جگہ یہ راے دی ہے کہ “اگر بٹن کھولنے سے زخم خشک ہو جاتے ہیں تو اسے عربانی نہیں کہتے۔ سماج جن بیماریوں میں مبتلا ہے ، عصمت قارئین کو ان سے باخبر کر دیتی ہیں مگر ان کا علاج نہیں بتائیں۔ نصیحت نہیں کرتیں۔ وہ تو بس ایک مشاہد کی طرح ایک تماش ہیں کی طرح جو کچھ دیکھتی ہیں ہمیں آپ کو دکھا دیتی ہیں۔ ان سے بچنا ان سے نفرت کرنا ، انھیں دور کرنے کی تدبیریں کرنا ہمارا آپ کا کام ہے۔ فرماتی ہیں سچا ادیب وہی ہے جو راہ نمائی سے کترا جائے۔ وہی لکھے جو اس کے دل کی گہرائی سے ابھرتا ہے، جو وہ دیکھتا ہے ، محسوس کرتا ہے جو اس پر بیتتی ہے۔”

 

عصمت پر لعنت ملامت کچھ زیادہ ہی ہوئی۔ سب یہ کہ جب انھوں نے فسانے لکھنے شروع کیے تو وہ زمانہ آج سے مختلف تھا۔ تعلیم نسواں کا دستور کم تھا۔ افسانہ لکھنا اور شعر کہنا عورت کی بدنامی کا باعث ہو تا تھا۔ پردے کی پابندیاں سخت تھیں۔ زیادہ تر عورتیں گھر کی چار دیواری میں قید رہتی تھیں۔ مگر عصمت جرات مند تھیں کہ انھوں نے لکھا اور بے باکی سے لکھا۔

عصمت کو اپنے افسانوں کے لیے بہت سا جنسی مواد تو بچپن ہی میں مل گیا تھا۔ جب یہ بچی تھیں تو دو پسر کو محلے بھر کی عورتیں جمع ہو کر بیٹھ جاتی تھیں۔ لڑکیوں کو وہاں سے چلتا کر دیا جاتا تھا۔ عصمت کا بیان ہے کہ وہ کہیں چُھپ کے پلنگ کے نیچے گھس کے ان کی باتیں سنا کرتی تھیں۔ لکھتی ہیں جنس کا موضوع گھٹے ہوئے ماحول اور پردے میں رہنے والی بیویوں کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ اسی پر بات چیت کیا کرتی تھیں۔ میری ناول نگاری اس گھٹے ہوئے ماحول کی عکاسی ہے۔ عصمت کی عریانی کو ہدف ملامت بھی بنایا گیا لیکن ادب کے پارکھوں نے اسے سراہا بھی۔ ساتھ ہی ایک خامی کی طرف اشارہ بھی کیا۔ وہ جنسی معاملات چٹخارے لے لے کر بیان تو کرتی ہیں مگر ان کے افسانوں میں تفکر اور فلسفیانہ تجزیہ ناپید ہے۔ اس لیے یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ان کی عریاں نگاری کسی عظیم مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں بذات خود ایک مقصد ہے اور یہ کوئی خوبی نہیں عیب ہے۔

نفسیاتی تجزیہ عصمت کے افسانوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔ دراصل جنسی معاملات کا ذہنی عمل سے گہرا رشتہ ہے۔ مثلا کسی کو بچپن میں ایسا حادثہ پیش آسکتا ہے ؟ ۔ کے ذہنی رویے کو بدل دے۔ پھر یہ بدلا ہوا رو یہ انسان کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے۔ عصمت کے افسانے ” نخی کی نانی“ سے اس نقطۂ نظر کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ ننھی کو اس کی نانی ایک گھر میں نوکری دلا دیتی ہے۔ وہاں ایک ایسا ها پیش آتا ہے جو اس کی آنے والی پوری زندگی کو برباد کردیتا ہے۔ دیکھیے

سرکار خس خانے میں قیلولہ فرما رہے تھے۔ ننھی پنکھے کی ڈوری تھامے اونگھ رہی تھی۔ پنکھاڑک گیا اور سرکار کی نیند ٹوٹ گئی۔شیطان جاگ اٹھا۔ ننھی کی قسمت
وگئی۔
اس کے بعد عصمت لکھتی ہیں کہ ”کچی کلی قبل از وقت تو ڑ کر کھلانے سے پنکھڑیاں جھڑ جاتی ہیں۔ ٹھوٹھ رہ جاتا ہے۔ ننھی کے چہرے پر سے نہ جانے کتنی معصوم پنکھڑیاں جھڑ گئیں۔ چہرے پر پھٹکار اور رو ژاپن ….. شاید اسی حادثے روڑا کا اثر تھا کہ جسم کی نشو و نما بھی ڈھنگ سے نہ ہوئی۔ ذہن میں ایسی کبھی پیدا ہوئی کہ ابھی ایک سے آشنائی ہے۔ ذرا دیر میں دوسرے ہے۔ عصمت کے افسانوں میں نفسیاتی تجزیہ جابجا ملتا ہے۔ بھول بھلیاں گیند مل اس کی اچھی مثالیں ہیں۔
ترقی پسند تحریک سے عصمت کی وابستگی بہت گہری تھی اور ان کے بہت سے افسانوں پر اس کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ ان کی حقیقت نگاری بھی دراصل اسی تحریک کی عطائے خاص ہے۔ کچھ افسانوں میں محنت کشوں کی حمایت بہت نمایاں ہے۔ اس سلسلے کا سب سے اہم افسانہ دو ہاتھ “ ہے۔ محنت کشوں کا ایک کنبہ ایک ناجائز بچے کو اس لیے گلے لگا لیتا ہے کہ کل وہ جوان ہو گا اور اس کے دو تو انا
ہاتھ اپنی مشقت سے بوڑھے ماں باپ کو سہارا دیں گے۔
نھی کی نانی ساری زندگی چوری چکاری میں گھری رہی کیونکہ اس کے بغیر اس کی گزر بسر ممکن ہی نہ تھی۔ ان حرکتوں نے اس کی شخصیت کو مسخ کر دیا کہ اس کا خالق بھی اپنی تخلیق پر شرمندہ ہو گیا۔ اس کی موت کا بھیانک منظر دیکھیے۔ اس دن اکڑوں بیٹھی ہوئی نانی دنیا کو ایک مستقل گالی دے کر چل نہیں! زندگی میں کوئی کل سیدھی نہ تھی۔ کروٹ کروٹ کانٹے تھے۔ مرنے کے بعد کفن میں بھی نانی اکٹروں لٹائی گئیں ۔ ہزار کھینچ تان پر بھی اکڑا ہوا جسم سیدھا نہ ہوا۔ حشر کے دن صور پھونکا گیا۔ نانی ہر بڑا کر کھنکھارتی ہوئی اُٹھیں جیسے لنگر کی بھنک کان میں سرکار خس خانے میں قیلولہ فرما رہے تھے۔ ننھی پنکھے کی ڈوری تھامے اونگھ رہی تھی۔ پنکھا رک گیا اور سرکار کی نیند ٹوٹ گئی۔ شیطان جاگ اٹھا۔ ننھی کی قسمت سوگئی۔

اس کے بعد عصمت لکھتی ہیں کہ ”کچی کلی قبل از وقت تو ڑ کر کھلانے سے پنکھڑیاں جھڑ جاتی ہیں۔ ٹھونٹھ رہ جاتا ہے۔ ننھی کے چہرے پر سے نہ جانے کتنی معصوم پنکھڑیاں جھڑ گئیں۔ چہرے پر پھٹکار اور رو ڑاپن ….. شاید اسی حادثے روڑاپن کا اثر تھا کہ جسم کی نشو و نما بھی ڈھنگ سے نہ ہوئی۔ ذہن میں ایسی کبھی پیدا ہوئی کہ ابھی ایک سے آشنائی ہے۔ ذرا دیر میں دوسرے ہے۔ عصمت کے افسانوں میں نفسیاتی تجزیہ جابجا ملتا ہے۔ بھول بھلیاں ،گیند، تل اس کی اچھی مثالیں ہیں۔

 

ترقی پسند تحریک سے عصمت کی وابستگی بہت گہری تھی اور ان کے بہت سے افسانوں پر اس کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ ان کی حقیقت نگاری بھی دراصل اسی تحریک کی عطائے خاص ہے۔ کچھ افسانوں میں محنت کشوں کی حمایت بہت نمایاں ہے۔ اس سلسلے کا سب سے اہم افسانہ دو ہاتھ “ ہے۔ محنت کشوں کا ایک کنبہ ایک ناجائز بچے کو اس لیے گلے لگا لیتا ہے کہ کل وہ جوان ہو گا اور اس کے دو تو انا ہاتھ اپنی مشقت سے بوڑھے ماں باپ کو سہارا دیں گے۔

نھی کی نانی ساری زندگی چوری چکاری میں گھری رہی کیونکہ اس کے بغیر اس کی گزر بسر ممکن ہی نہ تھی۔ ان حرکتوں نے اس کی شخصیت کو مسخ کر دیا کہ اس کا خالق بھی اپنی تخلیق پر شرمندہ ہو گیا۔ اس کی موت کا بھیانک منظر دیکھیے۔ اس دن اکڑوں بیٹھی ہوئی نانی دنیا کو ایک مستقل گالی دے کر چل نہیں! زندگی میں کوئی کل سیدھی نہ تھی۔ کروٹ کروٹ کانٹے تھے۔ مرنے کے بعد کفن میں بھی نانی اکٹروں لٹائی گئیں ۔ ہزار کھینچ تان پر بھی اکڑا ہوا جسم سیدھا نہ ہوا۔ حشر کے دن صور پھونکا گیا۔ نانی ہر بڑا کر کھنکھارتی ہوئی اُٹھیں جیسے لنگر کی بھنک کان میں پہنچ گئی ہو۔ فرشتوں کو صلواتیں سناتی، لشٹم پشٹم پل صراط سے اکڑوں گھسٹتی خداے ذوالجلال والاکرام کے حضور میں لپکیں۔ انسانیت کی اتنی بڑی توہین دیکھ کر خدا کا سر شرم سے جھک گیا اور وہ خون کے آنسو رونے لگا۔

مقصدیت کو دراصل وہ ادب کے لیے ضروری خیال کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک ادب وقت گزاری اور تفنن طبع کا ذریعہ نہیں زندگی کو سنوارنے اور بہتر بنانے کا وسیلہ ہے۔ فرماتی ہیں ”ادب دل بہلائی نہیں۔ وہ گراموفون نہیں کہ جب دل چاہا بجالیا۔ اسے تو زندگی کا آئینہ ہونا چاہیے ناکہ وہ جو کچھ دیکھے بیان کردے۔ معاشرے میں جو چیزیں ہیں انھیں کیوں پوشیدہ رکھا جائے۔”

 

عصمت کی زبان ان کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ وہ ہر طبقے کی زبان پر قدرت رکھتی ہیں۔ عام عورتوں کی زبان جیسی وہ لکھتی ہیں ایسی ابھی تک کوئی اور نہیں لکھ سکا۔ عام بول چال کے الفاظ اور محاورے وہ بڑی ہنر مندی کے ساتھ استعمال کرتی ہیں۔ شبیہوں سے بھی وہ خوب کام لیتی ہیں۔ وہ بالکل سامنے کی تشبیہیں انتخاب کرتی ہیں مگر اس طرح کہ عبارت کی دلکشی بہت بڑھ جاتی ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو ۔ ٹیڑھی میڑھی مورت جس پر کسی دیو نے دو گز لمبا پاؤں رکھ دیا ہو۔۔۔ ٹھگنی موٹی کچوراسی جیسے کچی مٹی کا کھلونا کمہار کے گھٹنے تلے دب گیا نھنی کی نانی ننھی سے کہتی ہے ” مال زادی ، اُچھال چھکا۔ یہاں آن کر مری ہے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے پنڈلیاں سوج گئیں۔“ یہ ہیں وہ خصوصیات جنہوں نے عصمت کے افسانوں کو خاص دعام میں ہر دل عزیز بتا دیا ہے۔

تحریر از ڈاکٹر سنبل نگار ،کتاب اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×