عصمت چغتائی کی ناول نگاری

عصمت چغتائی کی ناول نگاری

عصمت ہمارے عہد کی بہت مقبول ناول نگار ہیں۔ ان کی ساری زندگی افسانوی ادب کی خدمت میں بسر ہوئی۔ انھوں نے کئی کامیاب ناول اور متعدد یادگار افسانے لکھ کر ہمارے ادب کے سرمایے میں بیش قیمت اضافہ کیا۔ یہ البتہ ایک واضح حقیقت ہے کہ موضوعات کے اعتبار سے عصمت کا دائرہ کار بہت وسیع نہیں۔

محدود کینوس کے باوجود عصمت نے اپنے ناولوں میں کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ پوری کائنات تو اتنی وسیع اور ایسی عظیم الشان ہے کہ کوئی فن کار اس کی مکمل پیش کش کا دعوا کرے تو اس عظیم الشان کائنات کی گستاخی کا مرتکب ٹھہرے اور دیوانہ الگ کہلائے۔ وہ اس کے ایک ننھے سے حصے کا انتخاب کر کے اپنے محذب شیشے (Magritying Glass) کے نیچے رکھ دیتا ہے جس سے چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پوری طرح نمایاں ہو جاتی ہے۔
پروفیسر نور الحسن نقوی کا درست ارشاد ہے کہ عصمت کے افسانوی ادب کا کینوس محدود ہے۔ ان کی ایک جانی پہچانی دنیا ہے۔۔ متوسط مسلمان گھرانوں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی دنیا۔ وہ اس چھوٹی سی دنیا کی سیر کرتی اور اپنے قارئین کو کراتی ہیں مگر ان کا فن اتنا پختہ ہے کہ پڑھنے والے کو فن کار کی تنگ دامانی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ وہ اس دنیا کے ایک ایک گوشے کو بے نقاب کرتی ہیں۔ اس کے ہر نشیب و فراز سے آگاہ کرتی ہیں اور اپنی تخلیق کے فتی حسن سے قاری کو موہ لیتی ہیں۔

نفسیات کا مطالعہ شروع سے عصمت کا پسندیدہ موضوع رہا۔ اس موضوع پر

 

انھوں نے بہت سی کتابیں پڑھیں اور عملی زندگی میں انسانوں کی نفسیات پر غور کیا۔ خود ایک جگہ فرماتی ہیں کہ لکھنے کے لیے میں نے دنیا کی عظیم ترین کتاب یعنی زندگی کو پڑھا ہے اور اسے سے بے حد دلچسپ رموز پایا ہے۔”
نفسیات کے علم سے عصمت نے کتنا فائدہ اٹھایا اور اپنے ناولوں میں کتنے کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ کامیابی کے ساتھ پیش کیا یہ دیکھنا ہو تو عصمت کے ناول ” ٹیڑھی لکیر ” کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس میں کئی کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ نظر آتا ہے۔ ان میں سب سے اہم کردار شمن ہے۔ یہ ناول شمن کی ذہنی الجھنوں اور ان الجھنوں سے پیدا ہونے والے نتائج کی داستان ہے۔

جنسی حقیقت نگاری عصمت کے ناولوں اور انسانوں کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔ انھوں نے جنسی مسائل کو عام طور پر موضوع بنایا اور بے باکی سے ان پر لکھا۔ ان پر بار بار فحاشی اور عریانی کے الزام میں مقدمے چلے۔ جنسی مسائل سے آگھی تو انھیں کم عمری میں ہی حاصل ہو گئی تھی۔ ان کے بچپن میں محلے کی عورتیں دوپہر کو جمع ہو کر راز کی باتیں کیا کرتی تھیں۔ اس زمانے کے گھٹے ہوئے ماحول کی عورتیں جنس کے علاوہ اور کس موضوع پر گفتگو کر سکتی تھیں۔ لڑکیوں کو پاس پھینکنے کی اجازت نہیں تھی مگر نو عمر عصمت کو ان باتوں میں بہت دلچسپی تھی۔ پلنگ کے نیچے چُھپ کر کواڑ کی اوٹ میں کھڑے ہو کر وہ یہ سب سُن ہی لیتی
تھیں۔ بچپن کے اس دور میں دوسری تربیت جو عصمت نے حاصل کی وہ بے باکی اور صاف گوئی کی تھی۔ عصمت کے گھر کا ماحول دوسرے گھرانوں سے مختلف تھا۔ اس میں آزاد خیالی رچی بسی ہوئی تھی۔ خود فرماتی ہیں ” میری تربیت زیادہ تر بھائیوں کے ساتھ ہوئی۔ پھر میری اماں کچھ زیادہ دخل نہیں دیتی تھیں۔ اس لیے مجھے آزادی سے سوچنے کی عادت پڑگئی۔ میرے خاندان میں ہر بات چھوٹے بڑے سب پھٹ سے کہہ دیتے ہیں۔” جب ہمارے ملک میں جدید تعلیم اور مغربی تہذیب کے اثر سے اور مارکسی تحریک کے جڑ پکڑ لینے سے جھوٹی مذہبیت اور مصنوعی اخلاق کی گرفت ڈھیلی پڑی تو جنسی معاملات پر اظہار خیال کارجحان عام ہوا ۔ یہ بھی احساس ہوا کہ جنسی جذبات پر توجہ کیے بغیر انسانی ذہن کی گرہیں نہیں کھولی جاسکتیں۔ گویا نفسیات اور جنسیات کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ اس طرح اردو میں جنسی حقیقت نگاری کا آغاز ہوا۔ انگارے کے افسانہ نگاروں کے بعد اس وادی پُر خار میں قدم رکھنے والے ہمارے پہلے بڑے فن کار منٹو اور عصمت تھے۔ دونوں پر فحاشی کے الزام میں مقدمے چلائے گئے لیکن آخر کار اہل نظر کو اعتراف کرنا پڑا کہ دونوں حق بجانب تھے۔

عصمت کی زبان ان کے افسانہ و ناول کی دلکشی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جس طبقے کو انھوں نے اپنی تخلیقات کا خاص طور پر موضوع بنایا اس طبقے کی زبان پر بھی انھیں پوری دسترس حاصل ہے۔ عورتوں کی زبان پر ان کی قدرت اردو ادب میں بے مثال ہے۔ یہ زبان کچھ تو انھوں نے اپنے خاندان سے سیکھی اور کچھ علیگڑھ میں تعلیم کے دوران کالج کی لڑکیوں سے۔ آخر صاف ستھری زبان ایسی اجلی جیسے ابھی شبنم میں نہا کر نکلی ہو، خاص طور پر عورتوں کی زبان اس طرح ان کے دائرہ اختیار میں آگئی کہ جس طرح چاہیں استعمال کریں اور اپنے فن کو چار چاند لگادیں۔ عصمت کے وہ ناول جنھیں ہر لحاظ سے کمزور کہا جاسکتا ہے لطف زبان سے وہ بھی محروم نہیں۔ ہے۔ جب وہ طنز عصمت کی زبان ان کی سب سے بڑی توانائی سے بھری زبان استعمال کرتی ہیں تو ان کے فن پر اور بھی نکھار آجاتا ہے اور ایک ایک جملے میں سو سو آبدار نشتروں کی کاٹ سمٹ آتی ہے۔ ظ- انصاری ، عصمت کی اس خصوصیت کے بارے میں لکھتے ہیں : ” نھیں لکھنا آتا ہے۔ افسانہ سنانا آتا ہے۔ لچکیلی دھار دار زبان آتی ہے۔

 

نشتر چھبونا آتا ہے اور یہ سارے ہنر وہ اپنے مشاہدے اور مطالعے کی محدود دنیا میں خوب دیکھا چکی ہیں۔ ان کا ادبی کیسے ہیں سے شروع ہوا اور نہیں اسے انجام کو پہنچتا ہے۔” ضدی ، ٹیڑھی لکیر ، معصومہ سودائی ، عجیب آدمی ، دل کی دنیا اور ایک قطرہ خوں عصمت کے مشہور ناول ہیں۔ یہاں ان ناولوں کا مختصر سا تعارف پیش کیا جاتا

صدی عصمت کا پہلا ناول ہے۔ اس سے ۱۹۴۱ء میں انھوں نے ناول نگاری کا سفر شروع کیا۔ یہ ایک رومانی کہانی ہے جس میں ہیرو پورن جو ایک امیر گھرانے کا نوجوان ہے ایک غریب لڑکی آشا سے محبت کرتا ہے۔ آشا ایک خادمہ کی نواسی ہے۔ پورن کے گھر میں ہی اس کی پرورش ہوتی ہے۔ پورن آشا سے شادی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو آشا کو غائب کر کے اس کی موت کی خبر اڑا دی جاتی ہے۔ ایک عرصہ گزر جانے کے بعد پورن کی شادی کر دی جاتی ہے لیکن عین شادی کے دن پھیروں کے بعد وہ آشا کو دیکھ لیتا ہے اور اسے لے کر بھاگ جانا چاہتا ہے مگر آشا کو پھر غائب کر دیا جاتا ہے۔ پورن اپنی بیوی سے بے تعلق رہ کر آشا کے غم میں گھلنے لگتا ہے۔ موت سے ذرا پہلے آشا بلائی جاتی ہے کہ شاید اسے دیکھ کر پورن جی اُٹھے مگر وہ موت سے جنگ ہار جاتا ہے اور آشا اس کے ساتھ جل مرتی ہے۔ عصمت بتاتی ہیں کہ انھوں نے چار لڑکیوں کے ساتھ مل کر یہ کہانی بنائی تھی۔ عصمت نے اسے لفظوں کا خوبصورت لباس پہنایا اور ایک ناول تیار ہو گیا جو سو روپے میں فروخت ہوا۔ پانچوں نے میں روپے بانٹ لیے اور خوش ہوگئیں۔ یہ ایک ہلکا پھلکا رومانی ناول ہے جس کے کردار بھی سپاٹ اور بے جان سے اس میں دیوداس کا رنگ جھلکتا ہے اور عصمت کو اعتراف ہے کہ پانچوں سہیلیوں نے اسے پڑھا تھا اور ضدی کی کہانی میں اس سے فائدہ اٹھایا تھا۔

ٹیڑھی لکیر کو عصمت کے فن کی معراج کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک کامیاب نفسیاتی ناول ہے جو “مندی” کے تین سال بعد ۱۹۴۴ء میں لکھا گیا۔ شمن اس کا مرکزی کردار ہے۔ حالات نے پے در پے اس لڑکی کو ایسے چرکے لگائے کہ اس کے اس کے مزاج میں ٹیڑھ پیدا ہو گئی اور اس کی فطرت مسخ ہو کر رہ گئی۔
شمن اپنے ماں باپ کی دسویں بیٹی ہے۔ اس کی پیدائیش پر سب کو غم ہوتا ہے کہ بد بخت لڑکیوں نے بس یہی ایک گھر دیکھ لیا ہے۔ بے توجہی سے اس کی پرورش ہوتی ہے جس سے وہ محرومی اور تنہائی کے کرب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ تخریبی عناصر اس کے ذہن میں سر اُٹھانے لگتے ہیں۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ چیزوں کو توڑے پھوڑے اور جو سامنے آئے اُسے پیٹ ڈالے۔ شمن کی بڑی بہن بیوہ ہو کر اپنی بیٹی نوری کے ساتھ باپ کے گھر آجاتی ہے۔ اس بچی کو شمن سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے شمن کے دل میں نفرت کے شدید جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔
اسکول میں شمن کو ایک استانی مڈ چرن سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ ہم جنسی کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس کے بعد رسول فاطمہ اور نجمہ سے اس کی دوستی ہوتی ہے۔ یہ دونوں بھی اسی لعنت میں گرفتار ہیں۔ چھوت کا یہ مرض آخر شمن کو بھی لگ ہی جاتا ہے۔ آخر بلقیس اسے بتاتی ہے کہ لڑکیوں کو لڑکوں پر مرنا چاہیے تو وہ بلقیس کے بھائی رشید پر مرنے لگتی ہے مگر وہ ایک امیر زادی پر مرتا ہے۔ ایک بار پھر شدید تنہائی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور شمن پھر نفرت کی آگ میں دیکھنے لگتی ہے۔

کالج میں تعلیم کے دوران اس کی ملاقات کی عمر کے راے صاحب سے ہوتی ہے اور وہ ان سے اظہار محبت کر بیٹھتی ہے۔ اس قدم سے اس میں شرم کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اس کا جی چاہتا ہے وہ زمین میں سما جائے۔ اس کے بعد اس کی زندگی میں اعجاز آتا ہے پھر افتخار آتا ہے جو ایک دن اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آگر اسے پھر محرومی کے غار میں دھکیل دیتا ہے۔ آخر وہ گمراہ ہو کر بہت سے لوگوں سے رشتہ جوڑ لیتی ہے۔ آخر وہ ایک آئرش نوجوان رونی ٹیلر سے شادی کر لیتی ہے۔ نباہ اس سے بھی نہیں ہوتی اور تعلق منقطع ہو جاتا ہے مگر اب اس کی کوکھ آباد ہے۔ یہ احساس اس کی زندگی کو بدل ڈالتا ۔ زندگی کے یہ نشیب و فراز شمن کو توڑ ڈالتے ہیں۔ اس کی نفسیات میں ایک ایسی کجی پیدا ہو جاتی ہے جو صرف آخر میں جا کر ہی دور ہوتی ہے۔

معصومہ بمبئی کے فلمی ماحول پر لکھا گیا ایک ناول ہے۔ تقسیم ملک کے بعد معصومہ کے والد اپنے تینوں بیٹوں کے ساتھ روزگار کی فکر میں پاکستان چلے جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر وہ بھول جاتے ہیں کہ حالات سازگار ہونے پر وہ بیوی اور بیٹیوں کو حیدر آباد سے پاکستان بلانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ تنگ دستی کا شکار ہو کے معصومہ کی ماں اپنے بچوں کو لے کر بمبئی آجاتی ہے جہاں حالات معصومہ کو نیلوفر بنا دیتے ہیں۔ وہ لوگوں کی ہوس پرستی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور اس کی ماں کی حیثیت ایک نائکہ کی ہو کے رہ جاتی ہے۔ عریانی جابجا نظر آتی ہے۔ اس ناول میں لطف زبان کے سوا کوئی اور قابل ذکر چیز نہیں۔

سودائی ایک ابنارمل انسان سورج کی کہانی ہے جو پہلے بزدل” کے نام سے فلمائی گئی۔ اس کی منہ بولی موسی اسے داماد بتانا چاہتی ہے اس لیے بچپن سے اسے دیو نا کا رتبہ دیتی ہے۔ یہ برتاؤ اس کی فطرت کو مسخ کر دیتا ہے۔ اس دیوتا کے اندر ہی اندر ایک شیطان پلنے لگتا ہے۔ حد سے زیادہ گمراہی کی زندگی گزارنے کے بعد وہ خود کشی کر لیتا ہے۔ یہ کمرشیل انداز کا ایک معمولی ناول ہے۔

عجیب آدمی بھی فلمی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار دھرم دیو فلمی اداکار ہے۔ یہ ایک شریف انسان ہے مگر فلم انڈسٹری کا گندہ ماحول پہلے اس کی گھریلو زندگی کو برباد کرتا ہے پھر ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ وہ خود کو مار مرتا ہے۔ یہ بھی ایک معمولی ناول ہے

دل کی دنیا میں ایک ایسی لڑکی کی داستان پیش کی گئی ہے جسے شوہر کی بے التفاتی نے برباد کر دیا۔ اس لڑکی کا نام قدسیہ بیگم ہے۔ وہ حالات کے سامنے سپر انداز نہیں ہوتی بلکہ سوسائٹی کے رسم و رواج سے بغاوت کر دیتی ہے۔ وہ اپنے رشتے کے دیور شبیر حسن سے دل کی دنیا آباد کرلیتی ہے۔ شمن کے بعد قدسیہ عصمت کا دوسرا زندہ رہنے والا کردار ہے۔ یہ علامت ہے ہمارے اس معاشرے کی جس میں عورت کو پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ وہ ہار جائے تو معصومہ یا آشا بن جاتی ہے اور ہار ماننے سے انکار کر دے تو شمن یا قدسیہ بن کر اُبھرتی اور مٹنے سے انکار کردیتی ہے۔

ایک قطرہ خوں میں کربلا کے خونیں سانحے کو ناول کی شکل دی گئی ہے۔ یہ ناول مراثی انہیں کے غائر مطالعے کا نتیجہ ہے۔ عصمت لکھتی ہیں کہ واقعہ کربلا کا خیال کر کے میں نے طاقت کا مقابلہ کیا، گردن کٹا دی لیکن سر نہیں جھکایا ۔ اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے یہ ناول لکھ ڈالا۔

یہاں عصمت کا کارنامہ صرف ایک ہے۔ زبان کی دلکشی واقعات میں عصمت اپنی طرف سے کوئی اضافہ نہیں کر سکیں کیونکہ ہمارے مرضیہ نگاروں نے اس کی گنجایش ہی نہ چھوڑی تھی۔ اس مختصر سے تاریخی واقعے پر تخیل کے زور سے جتنے اضافے ممکن تھے وہ سب انھوں نے پہلے ہی کر دیے تھے۔ عصمت کے ناولوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کا خاص سبب ہے ان کی زبان کا جادو – فن کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ٹیڑھی لکیر“ ان کا سب سے
کامیاب ناول قرار پاتا ہے۔

تحریر از ڈاکٹر سنبل نگار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *