علامہ شبلی نعمانی
مولانا حالی کے بعد جس بزرگ نقاد پر ہماری نظر ٹھرتی ہے وہ علامہ شبلی نعمانی ہیں۔ ان کے تنقیدی نظریات نہ صرف اپنے زمانے کے شعر و ادب پر اثر انداز ہوئے بلکہ ان کی صدائے بازگشت آج بھی کسی نہ کسی انداز میں سنائی دے جاتی ہے۔ تقریباً ایک صدی گزر جانے کے باوجود ان کے افکار میں ایک طرح کی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔
حالی اور شبلی کے تنقیدی نظریات ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتے ہیں۔ دونوں کے خیالات میں ایک بنیادی فرق ہے۔ مولانا حالی افادی ادب کے علم بردار ہیں۔ شاعری سے وہ زندگی کو سنوارنے اور بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعر کی اصل ذمہ داری اخلاقی تعلیم ہے۔ علامہ شبلی کا شاعری سے اصل مطالبہ یہ ہے کہ قاری کو انبساط کی دولت عطا کر دے اور بس۔ اس کے لیے شعر میں حسن کاری ضروری ہوئی۔ شبلی شاعری کے اسی پہلو یعنی حسن کاری کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔
لفظ اور معنی دونوں میں کس کی اہمیت زیادہ ہے اس موضوع پر مولانا حالی اور علامہ شبلی دونوں نے اظہار خیال کیا ہے۔ مولانا حالی کا جھکاو معنی کی طرف ہے کیونکہ وہ شاعری کی مقصدیت کے قائل ہیں۔ علامہ شبلی لفظ پر زیادہ زور دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک رنگینی و رعنائی شعر کا اصل وصف ہے۔ فرماتے ہیں مضمون تو سب پیدا کرسکتے ہیں۔ شاعر کا معیار کمال یہی ہے کہ مضمون ادا کن لفظوں میں کیا گیا ہے اور بندش کیسی ہے ۔ ” اور “حقیقت یہ ہے کہ شاعری یا انشا پردازی کا مدار زیادہ تر الفاظ پر ہی ہے۔ گلستاں میں جو مضامین اور خیالات ہیں ایسے اچھوتے اور نادر نہیں لیکن الفاظ کی فصاحت اور ترتیب و تناسب نے ان میں سحر پیدا کر دیا ہے۔“
مینا کاری کو علامہ شبلی شاعری کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔ ان کے بر عکس مولانا حالی سادگی کو شعر کا اصل حسن خیال کرتے ہیں۔ مینا کاری کا مطلب یہ ہے کہ شعر میں رنگینی و رعنائی پائی جائے اور وہ پیدا ہوتی ہے شعری وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال ہے۔ شاعر مناسب لفظوں کا انتخاب کر کے اور انھیں سلیقے سے ترتیب دے کر شعر میں نغمگی پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد شعر میں رعنائی پیدا کرنے والی دوسری چیز ہے تصویر کشی۔ استعارہ و تشبیہ تصویر بنانے میں شاعر کی مدد کرتے ہیں۔ شبلی کا یہ خیال بھی ہے کہ استعارہ و تشبیہ سے کلام میں جو وسعت و زور پیدا ہوتا ہے وہ کسی اور طریقے سے پیدا نہیں ہو سکتا مثلا آدمیوں کی کثرت کا مضمون یوں ادا کیا جائے کہ وہاں آدمیوں کا جنگل تھا تو کلام کا زور بڑھ جائے گا۔ شاعری کو وہ دو چیزوں کا مجموعہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ہیں محاکات اور تخیل۔ ان دونوں کے بغیر شعر کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔ ذیل میں ان دونوں کی الگ الگ تعریف کی جاتی ہے۔
محاکات کے معنی شبلی کے نزدیک کسی چیز یا کسی حالت کا اس طرح نقشا کھینچنے کے ہیں کہ وہ مجسم ہو کر ہمارے سامنے آجائے۔ محاکات وہی شے ہے جسے تصویر کشی مصوری، مرقع نگاری، امیجری وغیرہ نام دیے جاتے ہیں۔ آج کی زبان میں اسی کو شعری پیکر کہتے ہیں اور اس شعر کو بہت پسند کیا جاتا ہے جو کوئی جیتی جاگتی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے پیش کردے۔ محاکات پر اظہار خیال کرتے ہوئے شبلی نے کئی اہم باتیں کہی ہیں۔ پہلی اہم بات تو یہ ہے کہ لفظوں سے بنائی ہوئی تصویر رنگوں سے بنائی ہوئی تصویر پر فوقیت رکھتی ہے۔ مصور رنگوں سے کسی ساکن یعنی ٹھری ہوئی چیز کی تصویر کھینچ سکتا ہے۔ شاعر لفظوں سے متحرک چیزوں کی تصویر بھی کھینچ دیتا ہے۔ کتنے ہی شعر میں جن سے دریا کا بہنا ، سبزے کا لہلہانا اور انسان کا بنسا بولنا چلنا پھرنا صاف نظر آجاتا
ہے۔
غم، غصہ، خوشی ، حیرت ، فکر، بیقراری۔۔۔ انسانی ذہن کی بے شمار کیفیتیں ہیں جن کی ہو بہو تصویر اتارنا مصور کے لیے دشوار ہے لیکن مصنف بہ آسانی یہاں اپنا کمال دکھا سکتا ہے۔ کسی شے کا طول و عرض تو مصور آسانی سے دکھا سکتا ہے
گہرائی میں دشواری پیش آتی ہے۔ شاعر و ادیب کے لیے یہ کام سہل ہے۔ محاکات کے بارے میں شبلی نے ایک نہایت اہم بات یہ کسی ہے کہ مصور جزئیات کو نظر انداز نہیں کرتا۔ اس کی باریک سے باریک چیز کو دکھا دینا چاہتا ہے۔ پھول کی تصویر اتارتا ہے تو اس کے ایک ایک رگ و ریشے کو نمایاں کر دینا چاہتا ہے۔ شاعر غیر ضروری تفصیل کو نظر انداز کردیتا ہے اور صرف ان چیزوں کا انتخاب کرتا ہے جو ہمارے دلوں پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ اس طرح مصنف کی تصویر اصل سے بھی زیادہ دلکش ہو جاتی ہے۔
تخیل کو علامہ شبلی شاعری کے لیے محاکات سے بھی زیادہ ضروری بتاتے ہیں۔ کہتے ہیں “محاکات میں جو جان آتی ہے وہ تخیل سے آتی ہے ورنہ خالی محاکات نقالی سے زیادہ نہیں۔ تخیل کو وہ قوت اختراع یعنی نئی نئی چیزیں ایجاد کرنے والی قوت جتاتے ہیں۔ تخیل کی مدد سے انسان اور خاص طور پر فن کار بات سے بات پیدا کرتا ہے یعنی کسی ایک چیز کو دیکھ کر فن کار کا ذہن کسی اور طرف چلا جاتا ہے بلکہ سو طرف جا سکتا ہے مثلاً ایک ہی پھول ہے جس میں کبھی محبوب کا چہرہ نظر آتا ہے” کبھی خدا کا جلوہ دکھائی دیتا ہے، کبھی زندگی کی بے ثباتی یاد آتی ہے تو کبھی اس کی بکھری ہوئی پتیاں عاشق کے چاک گریباں کا نظارہ دکھاتی ہیں۔
رومانیت شبلی کے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ اسی لیے وہ جذبات و احساسات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور انہی کے اظہار کو شاعری بتاتے ہیں۔ رومانی شاعر و نقاد ورڈزورتھ کے نزدیک جذبات کے بے قابو ہو کر بہہ نکلنے کا نام شاعری ہے۔ شبلی بھی جذبات کے فوری اور بے ساختہ اظہار کو شاعری کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں ”خدا نے انسان کو دو قوتیں دی ہیں۔ ایک ادارک اور دوسری احساس۔ ادراک کا کام سوچنا اور مسائل کو حل کرنا ہے۔ احساس کا کام صرف یہ ہے کہ جب کوئی اثر انگیز واقعہ پیش آتا ہے تو وہ متاثر ہو جاتا ہے۔ غم کی حالت میں صدمہ ہوتا ہے۔ خوشی میں سرور ہوتا ہے۔ حیرت انگیز بات پر تعجب ہوتا ہے۔ یہی قوت جس کو احساس کہہ سکتے ہیں شاعری کا دوسرا نام ہے یعنی یہی احساس جب الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے تو شعر بن جاتا ہے۔ یہ بھی شبلی کا رومانی ذہن ہی ہے جو شاعر پر پابندیاں لگانے کو گوارا نہیں کرتا۔ وہ اسے مکمل آزادی دلانا چاہتے ہیں۔ اسے قاری سے بے نیاز کر دینا چاہتے ہیں۔ جس طرح ادا کار یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ہزاروں تماش بینوں کے سامنے اداکاری کر رہا ہے اسی طرح شاعر کو بھول جانا چاہیے کہ وہ قارئین کے لیے شعر کہہ رہا ہے
حظ اندوزی کو شبلی شاعری کا اصل مدعا خیال کرتے ہیں۔ یہ شاعری کا وہ تصور ہے جو ارسطو نے ہزاروں سال پہلے پیش کیا تھا۔ حالی ادب کی افادیت اور مقصدیت کے قائل تھے اور اس سے درس اخلاق کا کام لینا چاہتے تھے۔ شبلی ان سے پوری طرح اتفاق تو نہیں کرتے لیکن ہر حال مانتے ہیں کہ شعر ایک قوت ہے جس سے بڑے بڑے کام لیے جاسکتے ہیں بشرطیکہ اس کا استعمال صحیح طور سے کیا جائے۔ ثبوت کے طور پر فرماتے ہیں کہ عربوں نے اس فن سے بڑے بڑے کام لیے ہیں۔ یہ شاعری کی تاثیر ہی تو تھی کہ کسی زمانے میں عرب قوم کی باگ شاعروں کے ہاتھ میں تھی۔ وہ جدھر چاہتے اس کا رُخ موڑ دیتے۔ اس لیے عربوں میں شاعری کی ایسی قدر تھی کہ جس قبیلے میں کوئی شاعر پیدا ہو جاتا، ہر طرف سے گروہ کے گروہ آ آکر اس قبیلے کو مبارکباد دیتے تھے۔
دل آویز نثر علامہ شبلی کی تحریر کو بہت پُرکشش اور پُر تاثیر بنادیتی ہے۔ ادق موضوع اور پیچیدہ مضمون کو بھی اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ ان کی بات قاری کے دل میں اتر جاتی ہے اور وہ آسانی سے ان کا ہم خیال بن جاتا ہے۔ ان کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ تر شا ہوا ہوتا ہے۔ شعریت ان کے مزاج کا خاصہ ہے اور ان کی تحریروں میں پوری طرح جلوہ گر ہے۔ شبلی کے تنقیدی نظریات کو سمجھنے کے لیے شعر العجم، موازنہ انیس و دبیر اور مقالات شبلی کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس مختصر مضمون کو ہم ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی کی اس رائے پر ختم کرتے
ہیں کہ :
شیلی ذوقی اور تحسینی نقاد ہیں۔ شعر سے لطف اندوزی ان کے یہاں ایک تخلیقی عمل بن گئی ہے۔ وہ شاعر کے تجربات کی اس طور پر باز آفرینی کرتے ہیں کہ وہ شعر ہر شخص کی اپنی واردات معلوم ہونے لگتا ہے۔ ان کا جمالیاتی ذوق رچا ہوا ہے اور ان کے احساسات بے حد لطیف و نازک ہیں ۔شبلی تنقیدی نگارشات نے کئی نسلوں کے مذاق سخن کی تربیت کی ہے۔ وہ موجودہ دور میں بھی کافی دور تک ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں۔”