عنایت تخلیے میں بزم میں نا آشنا ہوتا
غضب ہے یہ ادائیں دم ہی بھر میں کیا سے کیا ہونا
بتوں کے پہلے بندے تھے مسوں کے اب ہوئے خادم
ہمیں ہر عہد میں مشکل رہا ہے با خدا ہونا
مرا محتاج ہونا تو مری حالت سے ظاہر ہے
مگر ہاں دیکھنا ہے آپ کا حاجت روا ہونا
جو وقت ہے وہ یہ ہے دل نہیں ہے میرے کہنے میں
مجھے تسلیم ہے ارشاد واعظ کا بجا ہونا
خدا بنتا تھا منصور اس لیے مشکل یہ پیش آئی
نہ کھینچتا دار پر ثابت اگر کرتا خدا ہونا
بچاتا ہے ہزاروں کفر سے اے واعظ ناداں
بلائے دام گیسوئے بتاں میں متلا ہونا
مجھے جوش طبیعت سے ہوا شوق گناہ آخر
عجب کیا ناز سکھلائے اگر ان کو خفا ہونا
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار