عہد امانت سر نوشت میں شامل تھا
بیعت سے انکار سرشت میں شامل تھا
آگ لیے جاتی تھی حر کو اپنی طرف
ایک قدم اور اہل بہشت میں شامل تھا
وہ تو یہ کہیے میرے اشک مرے کام آئے
ورنہ میں بھی سنگ و خشت میں شامل تھا
افتخار عارف
عہد امانت سر نوشت میں شامل تھا
بیعت سے انکار سرشت میں شامل تھا
آگ لیے جاتی تھی حر کو اپنی طرف
ایک قدم اور اہل بہشت میں شامل تھا
وہ تو یہ کہیے میرے اشک مرے کام آئے
ورنہ میں بھی سنگ و خشت میں شامل تھا
افتخار عارف
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ