غالب و بیدل

غالب و بیدل

جہاں تک میرا حافظہ یاوری کرتا ہے، مجھے یاد نہیں آتا کہ میں نے غالب کو بیدل کا مقلد یا متبع لکھا ہو، لیکن یہ ضرور میں نے کسی جگہ ظاہر کیا ہے کہ اول اول غالب نے ریختہ میں بیدل ہی کے متبتع کی کوشش کی، لیکن جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو مومن کا رنگ اختیار کر کے بعض خصوصیات کے لحاظ سے ایک مستقل رنگ کا مالک ہو گیا۔ میں غالب کو بیدل کا متبع یا مقلد اُس وقت کہتا جب وہ اس رنگ میں کامیاب ہو جاتا ۔ ناکامی کی حالت میں کیونکہ ایسا دعوا کیا گیا ہے ۔ لیکن ہاں یہ ضرور کہوں گا کہ اس نے اس کی کوشش ضرور کی اور آخر کار منزل کی دشواریوں کو دیکھ کر اپنا جادۂ مقصود
بدل دیا ۔

اس کا سایہ بحث میں صرف دو سوال پیدا ہوتے ہیں :-

(1) کیا غالب نے بیدل کا تتبع کیا اور کیوں ۔ (۲) کیا اس سعی میں وہ ناکام رہا اور کن اسباب کی بنا پر۔ پہلے سوال کا اول جزو اپنے ثبوت کے لئے زیادہ کاوش کا محتاج نہیں جو غالب کا بیان کافی ہے ، ملاحظہ ہو :-

طرز بہت دل میں ریختہ لکھنا

اسداللہ خاں قیامت ہے

اسد ہر جاسخن نے طرح باغ تازه ڈالی ہے
مجھے رنگ بہار ایجادی بیدل پسند آیا

مطرب دل نے مرے تاریف سے غالب
ساز پر رشتہ پئے نغمۂ بیدل باندھنا

دوسرے شعر میں غالب علانیہ اعتراف کرتا ہے کہ مجھے بیدل کی جدت طرازیاں پسند ہیں جسے وہ بیدل کے مخصوص انداز میں ، رنگ بہار ایجادی سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ شہر میں وہ زیادہ قوت کے ساتھ ظاہر کرتا ہے کہ میرا تار نفس نغمہ بیدل کے لئے وقف ہے ۔ پہلا شعر معلوم ہوتا ہے بہت بعد کا ہے جب خود اس نے محسوس کر لیا کہ بیدل کا تتبع ممکن نہیں ۔

اس کے ساتھ جب اس کی شاعری کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو کثرت سے اس کی شہادتیں ملتی ہیں کہ غالب نے ریختہ میں کہاں کہاں اور
کس کس طرح ” بیدل سرائی کی ہے۔ نسخۂ حمیدیہ کے دیکھنے سے تو ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ غالب کے حذف شدہ کلام میں عنصر غالب اس حقہ کا ہے جس میں بیدل کا رنگ پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے لیکن اس کے معروف و متدا ول دیوان میں بھی بہت سے اشعار اور متحد قدر کریں
اس ثبوت میں پیش ہو سکتی ہیں۔

نظر حمیدیہ کے حسب ذیل اشعار ملاحظہ ہوں :-

فضائے خندہ گل تنگ ذوق عیش بے پروا
فراغت گاه آغوش و داغ دل پسند آیا

ہوئی جس کو بہار فرصت مستی سے آگا ہی برنگ لالہ جام باده بر محل پسند آیا

مواد چشم بسمل انتخاب نقطہ آرائی
خرام ناز بے پروائی قاتل پسند آیا

یہ ساری غزل غالب نے قصداً بیدل کے رنگ میں لکھی تھی جس کا اعتراف وہ خود مقطع میں کرتا ہے —

اسد ہر جا سخن نے طرح باغ تازه ڈالی ہے
مجھے رنگ بہار ایجادی بیدل پسند آیا

نہ بھولا اضطراب دم شماری انتظار اپنا
کہ آخر شیہ ساعت کے کام آیا غیار اپنا

جاندادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے
یاں عرصہ تپیدن ن بسمل نہیں رہا

ہوں قطره زن بوادی حسرت شبانه روز
جز تار اشک جادہ منزل نہیں رہا

شوق سامان فضولی ہے وگر نہ غالب
ہم میں سرمایہ ایجاد و تمنا کب تھا

موقوف کیجئے یہ تکلف نگاریاں ہوتا ہے ورنہ شعلہ رنگ حنا بلند

غرور ضبط وقت نزع ٹوٹا بیقرا رانہ
نیاز بال افشانی ہوا صبر و شکیب آخر

پیمانه وسعت کدۂ شوق ہوں اے اشک
محفل سے مگر شمع کو دل تنگ نکالوں

ہوں گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں

الغرض اس قسم کے اشعار کثرت سے نسخہ حمیدیہ میں پائے جاتے ہیں جو بیدل کے تتبع میں لکھے گئے ہیں ۔ معروف دیوان کے بھی بہت سے شعر اسی رنگ کے ہیں، جن سے ہر شخص واقف ہے تحریر و انتخاب کی ضرورت نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیوں غالب نے بیدل کا تتبع کیا اور کیوں اس میں وہ ناکام رہا، اور اسی کے ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ فارسی میں کیوں اس نے بیدل کا رنگ اختیار نہیں کیا جس میں اس کے لئے زیادہ آسانی تھی ۔

اس میں شک نہیں کہ غالب فطرت کی طرف سے فارسی کا نہایت پاکیزہ ذوق لے کر آیا تھا اور اسی کے ساتھ خوش بختی سے اُسے استاد بھی ایک ایرانی ماہر زبان مل گیا اس لئے ظاہر ہے کہ اس نے پہلے فارسی ہی زبان کی شاعری کی طرف توجہ کی ہوگی، اور اساتذہ ایران ہی کے کلام کو اپنے سامنے رکھا ہوگا ۔ پھر چونکہ اس میں شروع ہی سے شوخی پائی جاتی تھی اور عنفوان شباب میں رندانہ جوش و خروش کا ہونا فطری امر ہے اس لئے کوئی وجہ نہ تھی کہ ابتداء اسے بیدل کی طرف توجہ ہوئی جو نہ ایرانی شاعر تھا اور نہ اُس سطح کا جو عام طور پر غزل گوئی کے لئے مخصوص ہے۔ بعد کو جب غالب سن وقوں کو پہنچا اور زمانہ کے گرم و سرد تجربات نے اُسے روحانیت کی طرف مائل کیا تو یہ وہ وقت تھا جب اس کی ریختہ گوئی شروع ہوگئی تھی حالت یہ تھی کہ مغلیہ عہد کا چراغ بجھ رہا تھا، مصائب و آلام نے دلوں میں سوز و گداز پیدا کر رکھا تھا اور طبائع متشائیم شاعری کی جانب مائل تھے ۔ غالب ، ہر چند ایسی طبیعت لیکر نہ آیا تھا کہ اس ماحول سے صحیح معنی میں جذبات رقیقہ اس کے اندر پیدا ہوتے ، لیکن کچھ نہ کچھ اثر اس پر کبھی ہوا اور دل میں ہلکی سی وہ کیفیت پیدا ہوئی جس کا پایا جانا کلام مبدل سے لطف اٹھانے کے لئے ناگزیر ہے، ریختہ گوئی کا زور تھا ، غالب بھی محافل مشاعرہ کی گرم بازاری میں حصہ لے رہا تھا ۔ اپنے فارسی کلام سے اپنی ریختہ گوئی کو ممیز بنانا چاہتا تھا، بلندی ذوق جدت طرازی میر و درد کے رنگ کی طرف مائل نہ ہونے دیتی تھی اسلئے وہ مجبور ہو گیا کہ بیدل ہی کو سامنے رکھ کر ریختہ گوئی کے نقوش ساز کرے کیونکہ وہ اس رنگ میں فارسی ترکیبیں بھی اغلاق کی حد تک استعمال کر سکتا تھا جو اس کا طبعی رجحان تھا اور اپنی تخیل میں بھی ندرت وا ابداع کی صورتیں پیدا کر سکتا تھا جو اس کا ذہنی میدان تھا۔ پھر اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ غالب کی ناکامی کے اسباب کیا تھے ۔ اس پر غور کرنے سے قبل ضروری ہے کہ کلام بیدل کی خصوصیات کو مختصراً ظاہر کر دیا جائے۔ اکثر تذکرہ نویسوں نے جن میں مولانا شبلی مرحوم بھی شامل ہیں، بیدل کے سمجھنے میں سخت غلطی کی ہے اور اس لئے کہ اس کے کلام پر وہ صحیح تنقید نہ کر سکے ۔ اس پر سب سے بڑا الزام یہ رکھا گیا ہے کہ اس کے کلام میں فارسیت نہ تھی اور دور از کار استعارات و تشبیہات نے اس کے کلام کو اخلاق کی حد تک پہونچا دیا تھا۔ پہلا التزام اگروہ واقعی بیدل کے لئے کوئی الزام ہو سکتا ہے ، یقینا ایک حد تک صحیح ہے کیونکہ محض لطف زبان نہ اس کا مقصود تھا اور نہ زبان کی پابندی کے ساتھ وہ اپنے خیالات کو ادا کر سکتا تھا، وہ اپنے جذبات کو ظا ہر کرنا چاہتا تھا اور جب زبان کی تمام معمولی و متداول ترکیبیں ناکافی ثابت ہوتی تھیں تو بالکل الہامی و وجدانی طور پر از خود نئی نئی ترکیبیں اس کے ذہن سے پیدا ہوتی تھیں اور اس طرح گویا وہ اپنی ندرت تخیل کے ساتھ ساتھ ایک نئی زبان بھی پیدا کر رہا تھا، بیل کو محض شاعر کہنا اور شاعر سمجھ کر اس کے کلام پر تنقید کرنا درست نہیں ، وہ شاعر سے زیادہ بلند چیز تھا۔ بلکہ اس سے بھی ارفع ایک خلاق سخن تھا۔ ایک پیامرسان قدرت تھا حسن و عشق کی معمولی شاعری اس کے ذوق سے بہت ضروری چیز تھی اور اُس کا ہر ہر لفظ ایک ایسا نغمہ لاہوتی تھی جس کی مثال سوائے الہامی کتابوں کے کسی اور جگہ نہیں مل سکتی، پھر ظا ہر ہے کہ وہ لوگ جو صرف سعدی، نظامی، حافظ، فردوسی، عربی ، نظیری کی سطح سے بیدل کا مطالعہ کریں گے وہ یقینا کوئی لطف اس کے کلام میں نہ پائیں گے اور جنہوں نے وہ مخصوص ذہنیت فطرت کی طرف سے نہیں پائی ہے جو بیدل کے حقائق و معارف کو سمجھ سکے، وہ اگر اس کے کلام کو معلق جہل اور لغو نہ قرار دیں تو تعجب ہے ۔

بیدل اپنے بعد لاکھوں شعر اور ہزاروں در صفحات نثر کے چھوڑ گیا، لیکن آپ با وجود سعی و کاوش اس کا ایک مصرعہ یا ایک فقرہ بھی ایسا نہیں دکھا سکتے جو اس کے حقیقی رنگ ، اس کے سمیمی پیام سے علحدہ ہو، اس کی شاعری، اس کی انشاء یکسر وقف تھی صرف ایک جذبہ کے اظہار کے لئے کہ خالق و مخلوق کا تعلیم یہ والا نہایت کار ا تعلق ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ جو حقیقتا صرف ایک پر تو ہے اُسی ایک آفتاب کبریائی کا اپنے جز اصلی اپنے منبع فطری تک پہونچنے کے لئے بیتاب ہے اور یہ تمام جستجو صرف ایک حیرت ہے غیر متناہی ایک حیرانی ہے ابدی اور ایک بیکسی وبیچارگی ہے ناقابل علاج ۔
کلیات بیدل کے تمام مجموعے میں صرف رقعات ہی کا ایک خفتہ ایسا ہو سکتا تھا جس میں اس امر کا امکان تھا کہ وہ اپنی نگاک کو بندی سے ہٹا کر پستی کی طرف مائل کرتا، لیکن اس پر اتنا ز بر دست رنگ چڑھا ہوا تھا کہ دنیاوی معاملات و تعلقات کے اظہار میں بھی وہ اپنے حقیقی سنگ طبیعت کو نہیں چھوڑتا اور بادی تعلقات دنیا کو بھی وہ بالکل آسمانی و اشیری کی صورت سے پیش کرتا ہے۔

وہ ایک شخص کو خط لکھتا ہے اور اس کی تعبیر ان الفاظ میں کرتا ہے :-

شاد باش اے دل کہ آخر عقدہ ات دا می شود
قطرہ ما می رسد جائے کہ دریا می شود

کسی دوست کی پرستش پر وہ اس رنگ میں اظہار خیال کرتا ہے :-

مشت خاکم عشق نا دانسته صیدم کرده است
اے حیا آبم مکن از تنگ صیادم مپرس

جگہ گر نشد قابل روئے دوست فعال می رسانم بجائے کہ اوست

ایک صاحب نے ایک دلت تختہ پیش کی تھی۔ اس کا شکریہ ان الفاظ میں ہوتا ہے :-

مزد کہ چشم ہوس از گل و سمن پوشیم
سرے کشیم دریں گودڑی چمن پوشیم

ہوس دے کہ تمنائے این لباس کند

یہ ہے رنگ بیدل کا رقعات و مکاتیب میں اور اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ نکات ، چہار عنصر اور مثنویوں میں اُس نے کیا کچھ نہ لکھا ہوگا اور بلندی خیال رفعت تصور، جدت بیان اور ندرت ادا کے کیسے کیسے نادر نقوش آن میں پائے جاتے ہوں گے ۔ چونکہ اس مضمون میں بیدل پر نقد کرنا مقصود نہیں ہے اس لئے میں زیادہ مثالیں دینے سے معذور ہوں، لیکن مذکورہ بالا چند اشعار سے بھی کافی اندازه ہو سکتا ہے کہ بیدل پر کس قدر گہرا اثر حقیقت کا تھا اور اس کی زبان کا ہر ہر لفظ اسی کے لئے وقف تھا۔

غالب کو اپنی ذہانت، فارسیت اور شاعری پر جتنا ناز تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ، مشکل ہی سے وہ کسی کا قائل ہوتا تھا، لیکن بیدل کی جدت طرازیوں اور معنی آفرینیوں سے وہ بھی مرعوب ہو گیا اور اس حد تک کہ آخر کار اس نے اس کے تتبع کی کوشش شروع کر دی اور پھر خود ہی اس کے ذوق سلیم نے بتا دیا کہ کامیابی ممکن نہیں ۔ غالب کی ناکامی کا سبب صرف یہ ہوا کہ اس نے زمین وہ نہیں پیدا کی جو بیدل کی تخیل کو بار آور کر سکتی۔ بیدل نے صرف فلسفہ تکوین کو سامنے رکھا اور اس میں بھی خصوصیت کے ساتھ خالق و مخلوق کا تعلق، قدرت کی بے پایاں وسعت ، اس کے مظاہر و آثارہ اپنی محدود و نا کام جستجو اور آخر میں وحدت وجود جو نتیجہ ہے اس نوع کی سعی وجستجو کا۔ غالب نے غلطی سے بیدل کے اس رنگ کو منطبق کرنا چاہا مادی شاعری پر مادی تغزل پر اور اُن واقعات حسن و عشق پر جو اس دنیا میں انسانی گوشت و پوست سے متعلق رونما ہوتے ہیں اس لئے جو کچھ اس نے لکھا وہ اُس کیف سے خالی رہا جو بیدل کے یہاں پایا جاتا ہے اور چونکہ غالب کا ذوقی شعری نہایت بلند تھا اس لئے وہ اس کمی کو آخر کار خود بھی سمجھ گیا ۔ بیدل و غالب کے کلام کے اس فرق کو آپ ذیل کی مثال سے کچھ سمجھ سکیں گے غالب کا مشہور شعر ہے :-

بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
سو ربہتا ہے باند از چکیدن سرنگوں وہ بھی

مفہوم یہ ہے کہ میری بساط عجز میں سوائے ایک دل کے کیا تھا سو اُس کی بھی کیفیت یہ ہے کہ محض ایک قطرہ خون ہے جو ہر وقت ٹپک پڑنے کے لئے آمادہ رہتا ہے۔ اس شعر میں قلب کی صنوبری ساخت اور اس کی تعلیق و اثر گوئی سے اس کا یہ صورت قطرہ آمادہ چکیدن رہنا ظاہر کیا ہے ۔ یہ خیال غالب نے بیدل کے اس شعر سے لیا :

آپ گہریم و خون یا قوت
داریم بروئے خود چکیدن

لیکن فرق قابل غور ہے ۔ بیدل کہتا ہے کہ عالم خلق میں بہتر سے بہتر چیز کو لے کو مثلا گوہر و یاقوت لیکن اس کا بھی یہ حال ہے کہ اس کا اجر اسکی حالت سے ظاہر ہے۔ داریم بروئے خود چکیدن ۔ یہ پورا مصرعہ کیفیاتی تشبیہ سے متعلق ہے، غالب کے یہاں تشبیہ نظری و مادی ہے، اور دل کی تخصیص کر کے بساط حجز کے صرف ایک محدود و مخصوص منظر کو سامنے لاتا ہے، بیدل کوئی تعین نہیں کرتا بلکہ دو تمام وجود سے بحث کرتا ہے غالب کو دل کی تخصیص کے ساتھ سر نگوں اور یک قطرہ خون بڑھانا پڑا ، بیدل کو اپنے مقصود کی وسعت کے لحاظ سے مطلق اس کی ضرورت نہیں ہوئی غالب کو اپنا مفہوم ذہن نشین کرا کے لئے غیر معمولی تکلف کرنا پڑا، لیکن بیدل نے اُسے زیادہ سادہ و مختصر الفاظ میں اور زیادہ قوت کے ساتھ ظاہر کر دیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ فرق کیوں پیدا ہوا صرف اس لئے کہ بیدل کا نظریہ شاعری سے زیادہ بلند ہے اور اس لئے جس مضمون کو بیدل نے اس قدر بلند ہو کر بیان کیا ، غالب کو اس اظہار کے لئے نیچے آنا پڑا۔

علامہ نیاز فتح پوری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *