غزل

___________ غزل___________
لو ایسے چراغوں کی نہ مدھم کئے جاو
گم میری نگاہوں سے نہ عالم کئے جاو
میں لطف_آئندہ کی خوشی کھل کے مناوں
تم رنج _ گزشتہ کا ہی ماتم کئے جاو
مت آنے دو رخسار پہ کاجل کی سیاہی
مت جھیل سی ان آنکھوں کو پرنم کئے جاو
بھولے سے کبھی آ کے سر _ شام _تمنا
کچھ پل کی ملاقات تو یارم کئے جاو
اے سوز _ غم _ عمر _گریزاں کے مسیحا
زخم_ دل _ رنجور کا مرہم کئے جاو
جھومو کہ یہ شہباز کی نگری ہے فقیرو
یہ عرس_ قلندر ہے دما دم کئے جاو
اے رات ذرا رات کی رانی کا پتہ دے
اے صبح ذرا اوس کو شبنم کئے جاو
یہ کیا کہ جو زندہ ہیں قمر بھول کے ان کو
بچھڑے ہوئے لوگوں کا ہی تم غم کئے جاو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×