کتنے لوگوں کے لیے جینے کا سامان بنے
جو مناظر تری تخلیق کے دوران بنے
خوش اگر رہتے تو کس طرح توجہ پاتے
جان کر ہم تری محفل میں پریشان بنے
ایک ٹہنی سے بنی ہے مری بندوق کہ میں
مارنا چاہوں کسی کو تو گلستان بنے
ہم نے سوچا تھا تجھے دل میں کہیں قید کریں
ہم نے چاہا تھا ترے واسطے زندان بنے
اُس کے چہرے پہ تھی مسکان بچھڑتے لمحے
کس طرح اُس کے پلٹ آنے کا امکان بنے
آج نفرت سے جسے دیکھ رہے ہو مہدی
عین ممکن ہے وہی شخص دل و جان بنے
شہزاد مہدی