فیض احمد فیض کی حالات زندگی

فیض احمد فیض ایک ممتاز شاعر، انقلابی رہنما، صحافی اور مدیر تھے۔ فیض کی شاعری کو ایک نیا دبستان کہا جاتا ہے۔ فیض کو لینن امن ، ادب کا لوٹس ،سویلین ایوارڈ نشانِ امتیاز اور نگار ناز سے نوازا گیا۔ فیض کو اپنی زندگی میں ہی بین الاقوامی سطح پہ شہرت حاصل ہوئی۔

اردو جدید شاعری کا ایک اہم نام فیض احمد فیض ہے ۔ وہ ہمارے دور کے بڑے شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری کی شاخیں تو جدید شاعری کی فضا میں ہیں مگر ان کی جڑیں کلاسیکی شاعری کی زمین میں مضبوطی کے ساتھ ہیں ۔ انھوں نے غزلیں کم اور نظمیں زیادہ کہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے جدید نظم کے ساتھ غزل میں بھی اپنا الگ اور منفرد مقام بنایا ۔ ترقی پسند تحریک کے سرگرم کارکن ہونے کے باوجود ان کی شاعری میں رومانیت کے رنگ آب و تاب سے نظر آتے ہیں ۔ ان کے ہاں عشق محبت کے ایسے پر خلوص جذبات اور احساسات ہیں، جو اس سے پہلے کے شعراء میں نہیں ۔ وہ تمام عمر ایک خاص نظریہ حیات کا پرچار کرتے رہے۔ وہ انسانوں کی فلاح و بہبود کے جذبات رکھتے تھے ۔ فیض کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا رہا قید و بند کی مشکلات بھی سہنی پڑیں لیکن ان تمام تر مشکلات میں ان کا رویہ کچھ یوں رہا:

متاع لوح قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
لبوں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے

فیض احمد فیض کی شاعری کو اردو ادب کے قارٸین نے تو سراہا اور داد دی لیکن ہم اس مختصر سے مضمون میں فیض کے حوالے سے اردو ادب کے مختلف ناقدین کی آرا کا ایک اجمالی جائزہ لیں گے
پروفیسر قمر رئیس کا فیض کے پہلے شعری مجموعے “نقش فریادی” کے بارے میں کہنا ہے کہ “ ان کے لہجے میں نرمی اور تخیل کی نادرہ کاری کے ساتھ ساتھ مخرونی اور شکستہ دلی کی جو جاں گداز فضا تھی وہ اردو شاعری میں اجنبی بھی تھی اور اچھوتی بھی”
اس مجموعے کے بیشتر اشعار میں روایتی کلاسیکی انداز غالب ہے ۔ مثلآ :

ادائے حُسن کی معصومیت کو کم کر دے
گناہ گار نظر کو حجاب آتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
علی سردار جعفری نے فیض کی شاعری کے بارے میں غلط نہیں کہا کہ۔ ” فیض سے اردو میں ایک نئے دبستانِ شاعری کا آغاز ہوتا ہے یہ جدید مغربیت اور قدیم مشرقیت کا حسین امتزاج تھا۔ جس نے اردو شاعری کو دو آتشہ بنا دیا”
فیض کے کلام میں رومانیت مزاج ایک جزو کی حیثیت سے ضرور پائی جاتی ہے۔

گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

بقول ڈاکٹر وزیر آغا “اردو نظم کے کسی شاعر نے محبت کے جذبے کو اتنی شدت اور خلوص کے ساتھ پیش نہیں کیا جتنی شدت اور خلوص کے ساتھ فیض نے پیش کیا ہے۔ اس کی محبت محض روایتی عشق کی داستان نہیں بلکہ اس میں جسمانی قرب کے نتیجے میں جذباتی طوفان کے شواہد بھی ملتے ہیں۔‘‘

نظم نگاری کے اس جدید دور میں فیض نے اپنی شاعری کا آغاز آزاد نظموں سے کیا۔

بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:” اس کی رومانوی شاعری کا ایک ایک مصرع مانوس نشتر معلوم ہوتا ہے جو دل میں اترتا چلا جاتا ہے ۔ اس کی شاعری کے مدھم جذبات کی سطح کے نیچے متلاطم لہریں رواں دواں نظر آتی ہیں ۔ اس کی رومانوی شاعری کے لہجے میں وہ گھلاوٹ ہے کہ قاری اور شاعر کے دلوں کی دھڑکنیں ایک ہو جاتی ہیں۔ عشق دائمی قدر ہے اور ہر شخص کو عشق کے کسی نہ کسی پہلو اور کسی نہ کسی منزل سے ضرور واسطہ پڑتا ہے۔ اس لئے فیض کی عشقیہ نظمیں دل کے نیم جامد تاروں میں ارتعاش پیدا کر دیتی ہے ”

فیض کی ابتدائی شاعری بے نام منزلوں کی طرف گامزن تھی ۔مگر جلد ہی فیض احمد فیض نے اپنی منزل کا تعین کر لیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے ۔ ” راستے اور منزل کے تعین کے بغیر شاعری کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔شاعر ، ادیب اور دانشور کو بنیادی طور پر آگاہ ہونا چاہیے کہ سچ کیا ہے ؟ جھوٹ کیا ہے ؟ عارضی کیا ہے ؟ مستقل کیا ہے ؟ حقیقت کیا ہے ۔

فیض نے اپنی شاعری کا تعین جلد ہی کر لیا اور یہ ترقی پسند تحریک کا ہی مرہون منت ہے۔ اس تحریک نے فیض کو ترقی پسند بنایا اور بڑا شاعر بھی بنایا۔

ڈاکٹر ابوسعید نور الدین لکھتے ہیں :
فیض کا تعلق بہت حد تک ترقی پسند تحریک سے رہا ہے۔ اس تحریک کے ماتحت اردو میں جو ادب وجود میں آیا، اسے باغیانہ ادب سے موسوم کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا لیکن اس سلسلے میں فیض کا لب و لہجہ ہمیشہ ذرا مدھم رہا ہے۔ ان کی لَے کبھی حدِ اعتدال سے آگے نہیں بڑھی۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تُو ہے تو ،درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟

جبکہ ڈاکٹر عبدالغنی کی رائے فیض کی شاعری پر کچھ یوں ہے ان کا کہنا کہ فیض: ”رومان اور انقلاب کی کشمکش کے معاملے میں فیض کا شعور تاملات اور ترددات کی آماجگاہ ہے۔ وہ ہنوز فیصلہ نہیں کر پائے کہ انکی صحیح سمت کیا ہے جسم کے دلآویز خطوط یا زمانے کے دکھ- وہ بار بار جاناں کو چھوڑ کر دوراں کی طرف بڑھتے ہیں؛ لیکن نہ صرف مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں، بلکہ پلٹ بھی پڑتے ہیں پھر بڑھتے ہیں پھر پلٹتے ہیں“۔

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

مشہور اسکالر اور ادیب ڈاکٹر جمیل جابی کیا خیال ہے کہ:-
“فیض کی سب سے نمایاں خصوصیات ان کے خیالات کی سنجیدگی شخصیت کا توازن اور شعری اعتدال ہے”۔

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤںمیں چلے چپکے سے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

معروف شاعر و نغمہ نگار ، مجروح سلطان پوری کہتے ہیں کہ:-
“فیض احمد فیض ترقی پسندوں کے میر تقی میر تھے۔”

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کلام ملاحظہ ہو۔

اے خاک نشینوں اُٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں ، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

احمد سرور لکھتے ہیں:

“فیض کی شاعری میں انگریزی ادب کے ایک خوشگوار اثر جدید انسان کے ذہن اور ایشیائی تہذیب کے قابل قدر عناصر کی ایک قوس قزح جلوہ گر ہے ” ۔

مگر اسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد پتے

گرے ہیں اور تیرے گیسوؤں میں
الجھ کے گلنار ہو گئے ہیں

لمحوں کو زرد پتے کہنا خاص مغربی شاعری کا اثر ہے۔
احمد ندیم قاسمی انکے متعلق لکھتے ہیں:
”دراصل فیض ان شاعروں میں سے نہیں جو خلا میں شاعری کرتے ہیں، اپنے ماحول سے کٹ کر مراقبہ کرتے ہیں، اور اپنی روحوں پر اشعار نازل ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ فیض نے تو آج کی دنیا کے جملہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی محرکات کے شعور میں شعر کہے ہیں”مثلاً

چشم نم ، جان شورید کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بجولاں چلو
دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو
خاک برسر چلو ، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو

مجموعی طور پر فیض احمد فیض اپنی شعری خدمات کی وجہ سے اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے دور کے مختلف موضوعات اور واقعات کو تخیلی سطح پر محسوس کرکے اپنی شاعری کے ذریعے پیش کیا ہے۔ وہ اپنے عہد کے ایک ایسے نمائندہ شاعر ہیں ۔ فیض کی بطور شاعر، سیاسی رہنما، استاد ،مدیر اور صحافی خدمات کو کبھی تاریخ میں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×