لووں کی ڈوبتی کرنوں کے رقص میں ہے ایاغ

لووں کی ڈوبتی کرنوں کے رقص میں ہے ایاغ
پگھلتے روغنوں سے حلقہ ہے نظر کا چراغ

خزاں کی لہر نے موتی اجالے لالے کے
بہار کھا گئ پیلاہٹوں کی ، پھول دماغ

ہر اک روش پہ نشاں تربتوں کے روشن تھے
یہ سبزہ کھا گیا کثرت سے ان گلوں کا سراغ

نظر کی لہر کھلاتی ہے دشت میں گلزار
قدم کے پھیر اٹھاتے ہیں آہووں کے باغ

ہوس کی جوت نے کسوت جلائے ریشم کے
ہوا چلی تو اجالوں کا پیراہن ہوا داغ

ارسلان راٹھور

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×