لٹکتے گھونسلوں کو دیکھ کر ہوئے تھے مکین
ہمیں خبر نہیں تھی موت کی یہاں ہے زمین
وہ اہل عقل سے تھے اور دکھنے میں بھی حسین
مگر جوانی نے چھوڑے نہیں شکیب و معین
تلاشِ حسن میں دیکھی ہے ہم نے در بدری
مگر نہ دیکھا ان آنکھوں نے کوئی جلوہ نشین
جو دیکھ دیکھ کے آئینہ کھلکھلاتا ہے
ہے اس کو بھی کوئی غم ، آتا ہی نہیں ہے یقین
قریب ہے کہ ہمارے سروں پہ سورج ہو
کہ ہم نے کفر کہا سچ کو اور جھوٹ کو دین
فضیلؔ زندگی سے دور بھاگ جاؤں گا
ہے انتظار کہ بس کہہ دے کوئی ایک دو تین