مثنوی سحر البیان کا تنقیدی جائزہ
مثنوی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی دو کے ہے. اردو شعری روایت مثنوی کا آغاز دکن کی سر زمین سے ہوا. دکن کی سر زمین ادبی لحاظ سے بہت زرخیز ثابت ہوئی ہے. دکن میں مذہبی، اخلاقی اور عشقیہ مثنویوں کی کافی تعداد ملتی ہیں.
دہلی میں مرزا شوق، میر تقی میر، غالب، مومن خان مومن اور جرات نے مثنوی کی روایت کو آگے بڑھایا. لیکن جو شہرت گلزار نسیم اور سحر البیان کے حصے میں آئی وہ اور کسی مثنوی کو نصیب نہ ہوئی.
سحر البیان کی سب سے بڑی خوبی اس مثنوی کا بہاو اور روانی ہے. اردو شعریات میں کلام کی روانی کو خاص اہمیت حاصل ہے. امیر خسرو نے اپنے کلام کو پانی کی طرح رواں قرار دیا ہے. خدائے سخن بھی اپنے کلام کی روانی پہ نازاں ہیں
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
اس مثنوی میں میر حسن نے روانی کا خاص خیال رکھا ہے.
عربی، فارسی تراکیب، محاوروں اور تضمین کے اشعار نے بھی اس کی روانی اور سلاست کو متاثر نہیں کیا. بلکہ اس کی شعریت اور معنویت کو دو چند کیا ہے. اہم موڑوں پہ جہاں کوئی سبق آموز بات کرنی ہو جہاں زور / سٹریس دینا ہو فارسی اشعار کا استعمال دیکھتے کو ملتا ہے
اس دور کی لکھنو کی طرز معاشرت، بود و باش، رہن سہن، رسم و رواج اور تہواروں کی جھلک بھی مثنوی میں جلوہ گر ہے. یوں ایک تہذیبی اور معاشرتی پہلو بھی اس مثنوی کا خاصہ ہے.
پلاٹ یا قصوں کی حسن ترتیب نے مثنوی میں ربط برقرار رکھا ہے. پلاٹ کی اس شعوری ترتیب نے وحدت تاثر پیدا کیا ہے جو قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے.
مافق الفطرت عناصر جن اور پریوں نے مثنوی میں ایک خاص فضا کو جنم دیا ہے. جو پوری مثنوی کو اپنے دامن میں سمیٹے رکھتا ہے.
سسپنس نے مثنوی میں فینٹسی کا عنصر پیدا کیا ہے. شہزادہ بے نظیر کا بارہ سال کے عین آخری دن چھت پہ سونا. پری کا اسے اغوا کرنا. پھر اسے کل کا گھوڑا دینا. بدر منیر سے اس کی ملاقات. پری کا اسے قید کرنا. جن فیروز بخت کا نجم النساء سے محبت وغیرہ سسپنس کو برقرار رکھنے کے اہم عوامل ہیں.
بدر منیر کا بے نظیر کو خواب میں دیکھنا فرائد کے تحلیل خواب کی اچھی مثال ہے جس کے مطابق خواب انسان کی اصل زندگی سے ہی مستعار ہوتا ہے
مثنوی میں وصال کے احوال کے علاوہ ایک جنسی پہلو بھی کئ جگہوں پہ موجود ہیں. مثلا پہلی ملاقات میں ہی بے ہوش ہونا اور ہجر کے دنوں میں بے حال ہونے کا بیان جنسی نوعیت کا بھی ہے.