مجھے خار زار بنا دیا بڑی گل عزار سی شام نے ، ترے سامنے

مجھے خار زار بنا دیا بڑی گل عزار سی شام نے ، ترے سامنے
مرے سارے دیپ بجھا دیے تھے ہوا کے مست خرام نے ، ترے سامنے

تجھے یاد ہے کہ ملا تھا میں ، تری آرزوئے فراق سے بھی تپاک سے
مجھے اتنا ظرف عطا کیا مرے زخم دل کے پیام نے ، ترے سامنے

بڑی دلگداز تھی جان جاں ، وہ دم وداع کی گفتگو ، سر آبجو
کئی سوکھے پتے لپک پڑے تھے بکھرتے لمحوں کو تھامنے ، ترے سامنے

اسی دم شفق نے سمیٹ لی تھی ردائے رنگ کرن کرن بہ کمال فن
مرے شعلہ فام لبوں سے لو ، جو لپیٹ لی ترے نام نے ، ترے سامنے

مرے چارہ گر ، تجھے کیا خبر ، میں شرر شرر رہا رات بھر ، اسی بات پر
کہ بجھا دیا مجھے چاندنی کی جمیل آتش خام نے ، ترے سامنے

مگر اب یہ ہے کہ ہر ایک پل ہے غم اجل سو غزل غزل ہوئی جل کے تھل
کوئی حرف نم نہ ادا کیا مری چشم سیل کلام نے ، ترے سامنے

دل بیقرار ، ستارہ وار خلائے غم میں اتر گیا ، سو بکھر گیا
یہ عزاب پوش سا مرحلہ ، چلو ، طے ہوا ترے سامنے ، ترے سامنے

کبھی اسلم چمن آرزو بھی تھا موج موج گلاب خو ، ترے روبرو
مگر اس کو راکھ ہی کر دیا دم ہجر ماہ تمام نے ، ترے سامنے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *