مرزا اسداللہ خان غالب المعروف بہ مرزا غالب المعروف بہ مرزا نوشہ المخاطب بہ نجم الدولہ و بیر الملک اسد اللہ خان بہادر نظام جنگ المتخلص بہ غالب و اسد 1797 میں پیدا ہوئے ۔ان کے آبا و اجداد بیک قوم کے ترک تھے اور ان کا سلسلہ نسب توارین فریدوں تک پہنچاتا ہے ۔مرزا کے دادا شاہ عالم کے عہد میں سمرقند سے ہندوستان آئے ۔ان کے دادا جو ترکی زبان بولتے تھے بادشاہ کی فوج میں شامل ہوئے ۔ مرزا کے والد عبد اللہ بیگ خان عرف مرزا ودلہا تھے جن کی شادی خواجہ حسین خان کمیدان کی بیٹی سے ہوئی ان کے والد نے خانہ داماد کے بطور اپنے سسرال میں زندگی گزاری ۔ ان کے دو بیٹے پیدا ہوئے مرزا اسداللہ خان اور مرزا یوسف خان ۔ جو خوانی کی عمر میں مجنون ہوئے اور 1857 میں فوت ہوئے ۔ مرزا کے والد کو راج گڑھ میں گولی لگی اور وہی انھیں دفن کیا گیا جس کے بعد راجہ بتخاور سنگھ رئیس الور نے دو گاوں میر حاصل اور کسی قدر روزینہ دونوں بھائیوں کی پرورش کے لیے مقرر کیا ۔ والد کے وفات کے بعد چچا نصر اللہ نے ان کی پرورش کی ۔ان کے چچا کے وفات کے بعد انھیں پنشن ملتی رہی جو 1857 کے بعد بند ہو گئی ۔ آخر جب مرزا ہر طرف سے بری ہوگئے تو پنشن پھر جارہی ہوئی ۔ میر مہدی کے ایک خط کے جواب میں پنشن سے متعلق لکھتے ہیں ” میاں بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو آگیا ہے ۔ اس طرف سے خاطر جمع رکھنا ۔ رمضان کا مہینہ روزے کھا کھا کر کاٹا آگے خدا رازق ہے کچھ اور کھانے کو نہ ملا تو غم تو ہے ”
مرزا نے اپنا بچن آگرے میں گزارا ، اگرہ میں وہ شیخ معظم سے تعلم حاصل کرتے رہے ۔ فارسی میں مرزا نے عبد الصمد سے استفادہ حاصل کیا ۔ لیکن مرزا یہ بھی کہتے ہیں کہہ کہ انھیں نے صرف مبداء فیاض سے استفادہ کیا ہے ایک جگہ لکھتے ہیں
آنچہ در مبداء فیاض بود آن من است
گل جدا ناشداز شاخ بدامان من ست
13 برس کی عمر میں ان کا عقد مرزا نواب فخر الدولہ کے چھوٹے بھائی مرزا الٰہی بخش خان معروف کے ہاں ہوئی جس کے بعد وہ دل میں مستقل سکونت پذیر ہوئے ۔ جوانی میں ان کا شمار دلی کے خوش رو اور نہایت حسین لوگوں میں ہوتا تھا اور بقول حالی بڑھاپے میں بھی حسانت اور خوبصورتی کے آثار ان کے چہرے پہ نمایاں تھے ۔
دلی میں انھوں نے کرائے کے مکانوں میں زندگی بسر کی آخری زمانے میں حکیم محمود خان مرحوم کے دیوان خانے کے متصل مسجد کے عقب میں رہے جہاں ان کا انتقال ہوا اس نسبت سے وہ کہتے
مسجد کے زیر سایہ اک گھر بنا لیا
یہ بندہ کمینہ ہمسایہ خدا ہے
تمام عمر تصنیف میں گزاری لیکن انھوں نے کبھی کتاب نہیں خریدا وہ کتب فروشوں کی دکانوں سے کتابیں کروائے پہ منگواتے تھے ۔ مرزا کو شطرنج اور چوسر کھیلنے کی بہت عادت تھی جس کی وجہ سے انھوں ایک دفعہ سخت رنج اٹھانا پڑا ۔ انھیں چھ ماہ کے لیے قید کیا گیا لیکن بعد میں تین ماہ بعد آزاد کر دیا گیا ۔ قید کے دوران نواب مصطفی خان نے ان کی بہت مدد کی ۔
مرزا کے سات بچے ہو مگر سب فوت ہوگئے ۔ جس کے بعد ان کے بھانجے زین العابدین خان عارف کے انتقال نے انھیں بہت افسردہ کیا
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب ! کیا مت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
مرزا کی وفات غدر کے بعد 1869 میں ہوئی