مصروف کار
آدھی رات میں غزلیں سن کر
آدھی رات میں غزلیں گا کر
پورے چاند کی رات گزاری جاتی ہے
پھر دن میں سوجھی آنکھیں لے کر
خواب تلاشے جاتے ہیں
اور دنیا بھر کی بھدی آوازوں کا بوجھ اٹھا کر کانوں پر
جو اجرت ملتی ہے
ان پیسوں سے ہی
اگلی رات کی نیند خریدی جاتی ہے
یوں دن بھر کی مزدوری میں
خاموشی بچتی ہے ہم کو
بس لمبی تان کے سونے کو
یہ خاموشی ہی کافی ہے
پھر آدھے اور آدھے کے آدھے جتنا چاند نکلتا ہے
ہم بچنے والی خاموشی کو
آس پاس کے ایتھر میں چھڑکاتے ہیں
اور سونے لگتے ہیں
تو کتے اس خاموشی کو بھی کاٹ کے کھانے لگتے ہیں
ہم سوجھی آنکھیں لے کر
اگلے دن
پھر رزق کمانے لگتے ہیں
وقاص احمد