مطالعہ

مطالعہ باعث مسرت ہے۔ اس سے جملوں میں چاشنی پیدا ہوتی ہے اور قابلیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مطالعہ باعث مسرت اس وقت ہوتا ہے جب آپ تنہا ہوں یا آپ ذہنی یا جسمانی تھکاوٹ محسوس کر رہے ہوں۔ اسی طرح مطالعہ گفتگو کو دلچسپ اور پر اثر کرتا ہے۔ اور قابلیت اس لحاظ سے پیدا کرتا ہے کہ آپ فیصلہ کر سکیں چیزوں میں فرق معلوم کر سکیں اور کاروبارِ زندگی کو احسن طریقے سے نبھا سکیں۔ مطالعہ میں مہارت حاصل کرنے سے چیزوں کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور ان کو سلجھانے کی صلاحیت مستحکم ہوتی ہے۔ ایک عام آدمی مطالعے کے ذریعے اپنے روزمرہ کے معمولات بہتر طریقے سے سر انجام دے سکتا ہے۔ مسلسل ایک جگہ بیٹھ کے پڑھتے رہنا سستی کا باعث بن جاتا ہے۔ عام گفتگو میں زیادہ مطالعے کو ہاوی کرنا دکھاوا ہے۔ اسی طرح صرف مطالعے کی بنیاد پر پرکھ عالم کے لیے باعث تمسخر ہے۔ مطالعہ فطرت کو مکمل کرتا ہے، اور تجربے سے مطالعہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے۔ انسان کی صلاحیتیں مثل شجرِ نو خیر ہیں جس کی آبیاری مطالعہ کرتا ہے ۔ لیکن جب تک تجربات سے کام نہ لیں تب تک مطالعہ نا کافی ہے. مکار اور بے وقوف انسان مطالعے کی افادیت سے انکار کرتا ہے۔ جبکہ عام انسان اس کی افادیت کا قائل ہوتا ہے اور عقل مند انسان اس کا استعمال بھی جابجا کرتا ہے۔ مطالعہ ہمیں اپنا استعمال نہیں سکھاتا اس کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو تجربات و مشاہدات سے آتی ہے۔ کسی کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہر گز نہ پڑھیے اور نہ ہی اس پر اندھا اعتماد کریں، اور نہ ہی اس لیے مطالعہ کریں کہ آپ زیادہ بول سکیں۔ مطالعہ خود کو جاننے، جانچنے اور سمجھنے کے لیے کریں۔ کچھ کتابوں کو صرف چکھ لیں۔ کچھ کتابوں کو نگل لیں۔ جبکہ کچھ کتابوں کو اچھی طرح چبائیں اور ہضم کریں۔ کچھ کتابوں کو حرف بہ حرف اور حصوں میں پڑھیں۔ جو زیادہ متجسس ہوتے ہیں وہ ان کے معانی و مفاہیم کو حد درجہ بہتر طریقے سے سمجھیں ۔ کچھ کتابوں کو صرف اوپر سے سمجھنا کافی ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی دوسرے سے مدد لے سکتے ہیں تاکہ وہ اپ کو مختصراً سمجھا دے۔ اور کچھ کتابوں میں زیادہ معلومات نہیں ہوتی تو ایسی کتابوں کو بس اوپر اوپر سے دیکھنا کافی ہے۔ مطالعہ ایک مکمل ہمہ وقت تیار انسان بناتا ہے۔ لکھنا بھی انسان کو مکمل کرتا ہے۔ اگر ایک آدمی کم لکھتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ تیز دماغ رکھتا ہو۔ کم گو انسان کو حاضر جواب ہونا چاہیے۔ اگر کوئی آدمی کم پڑھتا ہے تو اسے حاضر دماغ اور محتاط ہونا چاہیے. تاریخ کا مطالعہ دانشمند بناتا ہے۔ شاعری کا مطالعہ قوت متخیلہ کو مضبوط کرتا ہے۔ جبکہ علم ریاضی دماغ کو حاضر اور تیز رکھتا ہے۔ نیچرل فلاسفی سے سوچ میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ اس سے انسان سنجیدہ ہو جاتا ہے ۔ مطالعہ کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ عقل کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی مگر اس کو مطالعہ سے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح کسرت جسمانی بیماریوں کو دور کرتی ہے مثلا بولنگ وغیرہ سے گردے ٹھیک رہتے ہیں۔ شوٹنگ پھیپھڑوں اور سینے کے لیے اچھی ہوتی ہے، چلنا معدے کے لیے، گھڑ سواری سر کے لیے اور اسی طرح اگر کسی انسان کا دماغ دھیان نہیں کر پاتا تو اسے ریاضی پڑھنی چاہیے۔ لیکن اسے ذرا سا دھیان بھٹکنے پر اسے از سر نو شروع کرنا ہو گا۔ اگر کوئی اپنے نقطہء نظر کو ثابت نہیں کر پاتا تو اسے وکلاء کے کیسز کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر آپ کے دماغ کا کوئی مسئلہ ہو مطالعہ سے درست ہو سکتا ہے.

ظفر ارشد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×