معروف شاعر و مصنف نواب ناظم میو کی تصنیف ,,مہارانی,, ایک تبصرہ,ایک تجزیہ۔۔۔تحریر۔۔۔فخرالزمان سرحدی ہری پور۔۔۔پیارے قارئین ادبی دنیا کے بے شمار درخشاں ستارے ہیں جن کی چمک سے ادبی دنیا منور وتاباں ہے۔انہی درخشاں ستاروں میں ایک خوبصورت نام نواب ناظم میو لاہور ہیں۔جن کی قلمی خدمات روشن آفتاب کی طرح روشن ہیں۔اس کالم میں موصوف کی کتاب ,,مہارانی,, کا تذکرہ مقصود ہے جو معاشرتی زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔لیکن موصوف چونکہ بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں اور ادبیات میں گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اور نظم ونثر میں قارئین کے لیے موتیوں کی سوغات پیش کرتے ہیں۔ان تصانیف میں,,لمحوں کا زہر,محبت لوٹ آۓ گی,اضطراب,نبیرہ ذوق,ہشت درویش,محافظ اراولی,مہارانی,حاجی عبداللہ میواتی,گوش برآواز,یہ تصانیف اتنا بڑا قیمتی سرمایہ اور اثاثہ ہیں جو موصوف کے رشحات قلم کا بہترین تحفہ ہیں۔مہارانی تو ایسی تصنیف ہے جو ایسی عورتوں کے نام لکھی ہے جو انتہائی مشکل حالات سے دوچار رہ کر اور مصائب جھیل کر زندگی بسر کرتی ہیں۔ان عظیم عورتوں کے نام یہ تصنیف ایک زبردست خراج تحسین ہے جو نواب ناظم میو صاحب نے لکھی ہے۔ان کی خدمات کو زبردست عقیدت بھرے اشعار کی صورت میں تحفہ کے طور پر پیش کی ہے۔مجموعی طور پر تو ہرہر لفظ میں ہمت اور بہادری کا پہلو نمایاں ہے۔ان عورتوں کے نام جو نام نہاد خاوندوں کے طرز عمل سے مشکلات تو برداشت کرتی ہیں لیکن محنت مزدوری سے روزی کماتی ہیں اور مہارانی کے نام سے ادبی دنیا میں نام پاتی ہیں۔مختلف عنوانات جن میں ناول کی ہیروئن,,مہارانی,,کے نام تو بہت قیمتی اشعار پیش کرتے ہیں۔یہ قابل دید منظر,یہ کیسا جذبہ ہے؟دل شکستہ جوڑا,مہارانی کے اندر کی آواز اور مکالمہ,نام نہاد شوہر,اور چراغ بجھ گئے,ہرن مینار,ابھی وقت ہے مہارانی۔۔۔گویا موصوف کی یہ تصنیف ان معاشرتی پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے جو معاشرے میں پاۓ جاتے ہیں۔اس ضمن میں یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ موصوف نے عورت کی محنت اور مشقت کو سراہتے ہوۓ بہترین انداز سے کتاب تصنیف کی ہے۔اگر یہ کہا جاۓ کہ موصوف نے نظم و نثرکی صورت میں معاشرے کی ترجمانی کی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔موصوف ایک بہترین اور تجربہ کار مصنف اور شاعر ہیں ۔ان کی تصنیف مہارانی ایک زبردست کتاب ہے۔یہ ان عورتوں کے نام ہے جو بلند ہمت ,باحوصلہ ہیں۔شادی شدہ ہونے کی حیثیت سے اگرچہ ان کے خاوند نکمے ہیں۔کوئی کام نہیں کرتے,ان کے ساتھ عذاب سہنے اور دکھ جھیلنے کے باوجود چھوٹی چھوٹی ملازمت کرتے بال بچے پالتی ہیں۔موصوف حقیقی معنوں میں دکھی لوگوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔دل شکستہ لوگوں کو حوصلہ دیتے ہیں۔معاشرتی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے کا حق ادا کرتے ہیں۔معاشرے میں پائی جانے والی بےقراری اور پریشانی کے خاتمہ کی امید دلاتے ہیں۔خاوند پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔گھر کے جملہ اخراجات پورے کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ایسے نکمے اور بیکار قسم کے خاوند جو کوئی کام نہیں کرتے بوجھ بن کر زندہ رہتے ہیں ۔ان کی بیویاں محنت مزدوری سے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔ایسے ماحول کو موضوع تحریر بنا کر ایک بہترین ناول نگار اور نصنف کا کردار ادا کرتے ہیں۔دیگر تصانیف بھی موصوف کے اعجاز قلم کا سرمایہ ہیں۔اللہ تعالٰی مزید قلم میں طاقت پیدا فرماۓ موصوف رعنائی قلم سے انسانیت کی خدمت کا مقدس فرض ادا کرتے رہیں۔
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار