مولوی نذیر احمد کی ناول نگاری

مولوی نذیر احمد

مولوی نذیر احمد نے دلچسپ اور سبق آموز قصے لکھ کر اردو ناول کا سنگ بنیاد رکھا مگر ناولوں سے پہلے ان کی کتاب زندگی کے ورق الٹنا آپ کی دلچسپی کا باعث ہو گا کیونکہ وہ قصے کہانیوں سے کہیں زیادہ مزیدار اور انسانی عزائم کو بند کرنے والی ہے۔

نذیر احمد بجنور کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابھی کم سن ہی تھے کہ والد نے عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دہلی بھیج دیا کیونکہ تعلیم کے علاوہ یہاں رہنے اور کھانے کا مفت انتظام ممکن تھا۔ اجمیری دروازے کے نزدیک اورنگ آبادی مسجد میں ایک عربی مدرسہ بھی تھا۔ یہیں رہنے اور پڑھنے لگے۔ کھانے کی صورت خود ان کے الفاظ میں یہ تھی کہ “پڑھنے کے علاوہ میرا کام روٹیاں سمیٹنا بھی تھا۔ صبح ہوئی اور میں چھبڑی لے کر گھر گھر روٹیاں جمع کرنے نکلا۔ کسی نے رات کی بچی ہوئی دال ہی دے دی۔ کسی نے قیمے کی لگدی ہی رکھ دی۔ کسی نے دو تین روٹیوں پر پر ٹرخادیا ۔ غرض رنگ برنگ کا کھانا جمع ہو جاتا تھا۔ طالب علموں کو استادوں کے گھروں پر بھی نوکروں کی خدمت انجام دینی پڑتی تھی۔ مدرسے کے استاد کی پوتی بڑی ظالم تھی۔ وہ نذیر احمد کو طرح طرح سے اذیتیں دیتی تھی لیکن آخر کار انھوں نے اتنی ترقی کی کہ اسی لڑکی سے شادی ہوئی۔ محض ایک اتفاق انھیں دلی کالج میں لے گیا۔ دلی کالج میں داخلہ ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ وہ ترقی کی منزلیں طے کرتے گئے اور تصنیف و تالیف کی طرف بھی متوجہ
ہوئے۔ یہ قصہ بھی دلچسپ ہے۔ جب ان کے بچوں کی تعلیم شروع ہونے کا زمانہ آیا تو درسی کتابوں کی تلاش ہوئی۔ کتابیں بہت تھیں لیکن ایسی کتابیں ناپید تھیں جو مفید ہونے کے ساتھ دلچسپ بھی ہوں۔ آخر کار انھوں نے خود اپنے بچوں کے لیے کتابیں لکھنا شروع کیں۔ بڑی بیٹی کے لیے “مراۃ العروس ” چھوٹی کے لیے منتخب الحکایات اور بیٹے کے لیے چند بند کتابیں لکھنے کی صورت یہ تھی کہ روز ہر ایک کو صفحہ آدھا صفحہ لکھ کر دے دیا کرتے تھے۔ ان کی کتابوں کو سراہا گیا، انعام عطا ہوئے۔ اس طرح مولوی صاحب کا حوصلہ بلند ہوا اور وہ تصنیفی کاموں میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔

مراۃ العروس : مولوی نذیر احمد کا پہلا ناول ہے جو ۱۸۶۹ء میں شائع ہوا۔ یہ ایک اصلاحی ناول ہے اور اس کا موضوع لڑکیوں کی تربیت ہے۔ اس میں اکبری اور اصغری دو بہنوں کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اکبری، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے بڑی بہن ہے۔ لاڈ پیار نے اُسے بگاڑ دیا ہے۔ وہ ضدی اور پھوہڑ ہے۔ اس کی شادی عاقل سے ہو جاتی ہے۔ اپنی بُری عادتوں سے وہ اپنے گھر کو دوزخ بنالیتی ہے۔ سسرال میں ہر ایک اُس سے نفرت کرتا ہے۔ چھوٹی بہن اصغری اس کی ضد ہے۔ وہ نیک ، خوش مزاج خدمت گزار اور سلیقہ مند ہے۔ عاقل کے چھوٹے بھائی کامل سے اس کی شادی ہو جاتی ہے۔ اس کے قدم رکھتے ہی یہ گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ مصنف دراصل یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ جن بچیوں کی اچھی تربیت ہو جائے وہ زندگی میں بہت کامیاب رہتی ہیں۔ یہ کتاب اکبری اصغری کا قصہ “ کے نام سے شایع ہو کر عورتوں میں بے حد مقبول ہوئی اور نذیر احمد اکبری اصغری والے مولوی صاحب کے نام سے مشہور ہو گئے۔ یہ ناول انھوں نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا ۔

بنات النعش : مراۃ العروس کے تین سال بعد شایع ہوئی۔ اس کا موضوع بھی خانہ داری کی تربیت اور اخلاق کی تعلیم ہے۔ اس کا مرکزی کردار حسن آرا ہے جو .. اصغری کے قائم کیے ہوئے اسکول میں تعلیم پا کر زندگی میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔
اس کتاب کے ذریعے معلومات عامہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسے مراۃ العروس کا حصہ دوم سمجھنا چاہیے۔

توبتہ النصوح : مولوی نذیر احمد کا تیسرا ناول ہے جو ۱۸۷۷ء میں شایع ہوا۔ یہ اولاد کی تربیت کے بارے میں ہے۔ اس ناول کے ذریعے یہ حقیقت روشن کی گئی ہے کہ اولاد کی محض تعلیم ہی کافی نہیں ہے۔ اس کی پرورش اس طرح ہونی چاہیے کہ اس میں نیکی اور دین داری کے جذبات پیدا ہوں۔ نصوح نے اپنی اولاد کی تربیت ٹھیک طرح سے نہیں کی تھی۔ شہر میں ہیضہ پھیلا۔ نصوح خود بھی بیمار ہوا۔ ای دوران اس نے خواب دیکھا کہ حشر کا میدان بپا ہے۔ ہر ایک کے اعمال کا حساب ہو رہا ہے۔ اس موقعے پر نصوح کی جھولی خالی ہے۔ بیدار ہوا تو وہ اپنے خاندان کی اصلاح پر کمربستہ ہو گیا۔

فسانہ مبتلا : جس کی اشاعت ۱۸۸۵ء میں ہوئی مولوی صاحب کا چوتھا ناول ہے۔ اس کا موضوع ہے تعدد ازدواج یعنی ایک سے زیادہ شادیاں ناول میں اس کی خرابیاں ظاہر کی گئی ہیں۔ ناول کے مرکزی کردار مبتلا کی پرورش ٹھیک طرح سے نہیں ہوئی تھی۔ والدین نے یہ سوچ کر اس کی شادی کردی کہ شاید وہ اسی طرح سنبھل جائے۔ مگر وہ ایک عورت ہریالی کو ماما کے بھیس میں گھر لے آیا۔ آخر بات
کھل گئی۔ سوتنوں کے جھگڑے بڑھتے رہے۔ مبتلا گھل گھل کر مر گیا۔

ابن الوقت : ایک دلچسپ ناول ہے جو فسانہ مبتلا کے تین سال بعد شایع ہوا ۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ دوسروں کے رہن سہن کی نقل کرنے والا آخر کار پچھتاتا ہے۔ ابن الوقت نے انگریزوں کی نقالی کی۔ اس کے بھائی حجتہ الاسلام نے بہت
سمجھایا مگر وہ باز نہیں آیا۔ آخر کار اسے اپنی روش پر شرمندہ ہونا پڑا۔ بعض لوگوں
نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ابن الوقت کے پردے میں سرسید پر چوٹ کی گئی ہے۔ اور حجتہ الاسلام کے پردے کے پیچھے خود مولوی نذیر احمد ہیں۔

ایامی : کا موضوع ہے بیوہ عورتوں کا عقد ثانی۔ ہندوستان میں بیوہ عورتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک ہوتا رہا ہے مولوی صاحب اس ناول سے پہلے بھی اس کے خلاف آواز اُٹھا چکے تھے ۔ آزادی بیگم جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ اس نے بیوگی کا درد سا تھا۔ اس لیے خود کو بیواؤں کی خدمت کے لیے وقف کر دیتی ہے لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتی ہے اور مرنے سے پہلے ان کی حالت زار پر ایک دردناک تقریر کرتی ہے۔

رویائے صادقہ مولوی نذیر احمد کا آخری ناول ہے۔ یہ ۱۸۹۴ء میں شایع ہوا۔ ناول کا مرکزی کردار صادقہ ہے۔ یہ بچپن سے خواب دیکھتی ہے جو سچ ثابت ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے مشہور ہو جاتا ہے کہ اس پر جن بھوت کا اثر ہے۔ کوئی گھرانا اسے بہو کے روپ میں اپنانے کو تیار نہیں ہوتا۔ آخر کار علی گڑھ کا ایک طالب علم صادق صادقہ کا ہاتھ مانگتا ہے اور اس کے والد کو ایک تفصیلی خط لکھتا ہے۔ اس خط میں وہ اپنے مذہبی عقائد بیان کرتا ہے۔ دراصل جدید تعلیم نے اس کے مذہبی عقائد کو ڈانوا ڈول کر دیا ہے۔ لڑکی کے والدین کو یہ رشتہ قبول کرنے میں تامل ہے لیکن صادقہ اپنی سہیلی کے ذریعے ان سے کہلواتی ہے کہ یہ رشتہ ہو کے رہے گا کیونکہ میرا خواب یہی کہتا ہے۔ آخر شادی ہو جاتی ہے۔ صادقہ خواب دیکھتی ہے کہ کوئی بزرگ صادق کی الجھنوں کو سلجھا رہے ہیں اور دلیلوں سے اس کے شکوک و شبہات دور کر رہے ہیں۔ یہ بزرگ در اصل سرسید ہیں جنھوں نے مذہب اسلام کو مطابق عقل ثابت کرنے کی کوشش کی۔ صادقہ اپنے شوہر کو ان بزرگ کی ساری تقریر سناتی ہے۔ بزرگ کی تقریر یقینا سرسید کے مدلل مذہبی افکار ہیں۔ یہ افکار صادق کے سارے شکوک و شبہات کو رفع کر دیتے ہیں۔

جذبہ اصلاح مولوی نذیر احمد کے تمام ناولوں میں کار فرما ہے۔ ان کا ہر ناول کسی کسی مقصد کے تحت لکھا گیا اور سرورق پر اس مقصد کا بالعموم اعلان بھی کر دیا گیا۔ “مراۃ العروس” اور “بنات النعش ” لڑکیوں کی تربیت پر زور دینے کے لیے لکھے گئے۔ توبتہ النصوح“ کا پیغام یہ ہے کہ والدین خود کو اپنی اولاد کے لیے نمونہ بنائیں اور اسے دین دار بنانے کی کوشش کریں۔ ” ابن الوقت ” میں غلامانہ ذہنیت رکھنے والے ہندوستانیوں کو بتایا گیا ہے کہ انگریزوں کی نقالی کر کے صاحب بہادر بننا چاہو گے تو ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ ”فسانہ جتلا ایک سے زیادہ شادیوں کی خرابی پر روشنی ڈالتا ہے۔ بیوہ عورتوں کے عقد ثانی کے فائدے ” ایامی سے اجاگر ہو جاتے ہیں۔ “رویائے صادقہ “ میں مذہبی امور پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے کہ جدید تعلیم سے بہرہ ور نوجوان دین سے برگشتہ نہ ہوں۔ غرض ہر ناول کسی نہ کسی سماجی عیب کو دور کرنے کے مقصد سے لکھا گیا ہے۔ جس زمانے میں مولوی نذیر احمد نے یہ ناول لکھے اس وقت سرسید کی اصلاحی تحریک اپنے شباب پر تھی ادب کی افادیت اور مقصدیت پر زور تھا۔ سرسید کے اثر سے اور خاص طور پر حالی کے مقدمہ شعر و شاعری کی اشاعت کے بعد یہ خیال عام ہو گیا تھا کہ ادب محض تفریح اور وقت گزاری کا ذریعہ نہیں بلکہ زندگی کو سنوارنے اور بہتر بنانے کا وسیلہ بھی ہے۔ نذیر احمد کے دور کو دُور اصلاح کہنا چاہیے اور مصلحین کے کارواں سالار تھے سرسید مگر پروفیسر نور الحسن کے قول کے مطابق بعض معاملات میں نذیر احمد کو ان پر فوقیت حاصل ہے۔ وہ چونکہ عربی زبان کے ماہر اور عالم دین بھی تھے اس لیے مذہبی مسائل میں افراط و تفریط سے محفوظ رہے۔ دوسرے یہ کہ ان کی طبیعت میں سرسید کی بہ نسبت زیادہ اعتدال و توازن تھا اور تیسری بات یہ کہ بعض اصلاحی امور میں وہ سرسید سے بھی آگے تھے مثلاً تعلیم و
تربیت نسواں کی طرف انھوں نے سرسید سے زیادہ توجہ کی۔ بیوہ عورتوں کے ثانی کی اہمیت کو انھوں نے پہلی بار دل نشیں پیرایے میں بیان کیا۔ نذیر احمد کے اصلاحی ناول اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ کبھی کبھی جذبہ اصلاح سے وہ اس قدر مغلوب ہو جاتے ہیں کہ فی تقاضے پس پشت جاپڑتے ہیں اور کہیں کہیں تو وہ محض واعظ و ناصح بن کر رہ جاتے ہیں۔ لیکن جہاں فن کار نذیر احمد نے واعظ نذیر احمد پر فتح پالی ہے وہاں فن کا معجزہ ظہور میں آیا
ہے۔
:
حقیقت نگاری مولوی نذیر احمد کے ناولوں کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔ اور زبانوں کی طرح ہمارے ادب میں بھی ناول سے پہلے داستانوں کا دور دورہ تھا اور یہ داستانیں حقیقت کی دنیا سے بہت دور تھیں۔ ان میں یا تو جن بھوت، دیو اور پریاں ، جادو اور جادوگرنیاں نظر آتے ہیں یا پھر بادشاہ وزیر ، شہزادے اور شہزادیاں۔ واقعات بھی وہ ہیں جنھیں عقل کسی طرح تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ ناول داستان کے خلاف رد عمل کے طور پر وجود میں آیا۔ اس کا مقصد زندگی کی تصویر کشی تھا۔ مولوی نذیر احمد کے ناول اس کسوٹی پر پورے اُترتے ہیں۔ ان میں حقیقی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ زیادہ تر وہ مسلمان متوسط گھرانوں کی عکاسی کرتے ہیں اور ہو بہو نقشا کھینچ دیتے ہیں۔ افتخار عالم نے ”حیات النذیر“ میں لکھا ہے کہ اکبری اصغری کے قصے کو لوگ سچا واقعہ خیال کرتے تھے اور کتنے تو ان بہنوں کے کےا۔ گھروں کا پتا پوچھتے پھرتے تھے۔ بہتوں کو تو یہ شبہ ہوا کہ شاید ان کے اپنے خاندان کی تصویر کھینچی گئی ہے۔ ابن الوقت کو سرسید کی تصویر کا ایک رُخ ٹھہرایا گیا۔ حجتہ الاسلام کے کردار میں لوگوں نے خود موادی نذیر احمد کا چہرہ دیکھا۔ آزادی بیگم میں
مولوی صاحب کی ایک بیوہ سالی کا عکس ڈھونڈ نکالا گیا۔
مختصر یہ کہ نذیر احمد کے ناولوں میں حقیقی زندگی کے مرقعے نظر آتے ہیں اور اصلی دنیا کے انسان سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔
.

پلاٹ : کی اہمیت سے نذیر احمد بخوبی واقف تھے لیکن ان کے سامنے داستانوں کے نمونے تھے جن میں مربوط پلاٹ کا فقدان ہے۔ دوسرے ان کا اصلاحی تبلیغی مشن مربوط پلاٹ کے راستے میں اکثر زکاٹ بن جاتا ہے۔ موقع بے موقع وعظ اس میں جھول پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے کئی عمدہ پلاٹ پیش کیے۔ فسانہ مبتلا کا پلاٹ بہت سڈول بہت کٹھا ہوا اور بہت متناسب ہے۔ ناول کے ابتدائی حصے میں قصے کی رفتارت ہے اور جتلا کی ذہنی ساخت کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری بھی ہے۔ ایانی کا پلاٹ بھی مربوط ہے مگر آخر میں آزادی بیگم کی جو تقریر دی گئی ہے اس سے پلاٹ کے تناسب کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ لمبی تقریر حذف کر دی جائے تو ایامی کا پلاٹ زیادہ سڈول اور مربوط ہو جاتا ہے۔ پلاٹ کے نقطہ نظر سے “ابن الوقت ” بھی ایک کامیاب ناول ہے۔ واقعات کی کڑیاں اس طرح ایک دوسرے میں پیوست ہیں کہ کہیں جھون پیدا نہیں ہوتا اور واقعات فطری طور پر آگے بڑھتے ہیں۔ ناول نگار کی مقصدیت پلاٹ پر غالب نہیں آتی اور ایک تر شا ہوا پلاٹ وجود میں آجاتا ہے۔ البتہ حجتہ الاسلام کی تقریر نے پلاٹ کو کسی حد تک نقصان پہنچایا
ہے۔

رویائے صادقہ “ کے ابتدائی صفحات سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ایک بے عیب پلاٹ وجود میں آنے والا ہے مگر یہاں بھی مقصدیت فن کاری پر غالب آجاتی ہے۔ توبتہ النصوح کا پلاٹ ناول نگار کے فنی شعور اور ذہنی پختگی کا پتا دیتا ہے۔ یہ بھی اصلاحی ناول ہے اور یہاں بھی ناول نگار کا اصل مدعا پند و نصیحت ہے مگر یہاں فن کار کو واعظ پر فتح حاصل ہوئی ہے۔ اس ناول کے پلاٹ میں ترتیب و توازن کا حسن موجود ہے اور واقعات میں ایسا ربط ہے کہ ایک واقعہ دوسرے واقعے
سے فطری طور پر پیوست نظر آتا ہے۔ نذیر احمد کے پہلے دونوں ناول — مراۃ العروس اور بنات النعش ۔۔ پلاٹ کے اعتبار سے کمزور ہیں۔ ”مراۃ العروس” دو بہنوں کی کہانی ہے۔ دونوں کہانیاں الگ الگ ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ دونوں کہانیاں ایک ساتھ نہیں لکھی گئیں۔ اگر انھیں باہم مربوط کر دیا گیا ہوتا تو ایک عمدہ پلاٹ وجود میں آسکتا تھا۔ ای طرح “بنات النعش” بھی عیب سے پاک نہیں۔ یہ ناول معلومات عامہ کا پلندہ بن کے رہ گیا ہے۔ ان دونوں ہی ناولوں میں مقصدیت کا غلبہ ہے جو پلاٹ کی تشکیل میں حائل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ ابتدائی دور کے ناول ہیں نقائص سے پاک کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس گفتگو سے اتنا بہر حال ثابت ہو جاتا ہے کہ پلاٹ تیار کرنے کا سلیقہ وہ بہر حال رکھتے ہیں۔

کردار نگاری کے بہترین نمونے مولوی نذیر احمد کے ناولوں میں مل جاتے ہیں۔ مرزا ظاہر دار بیگ، کلیم ، ابن الوقت ، مبتلا اور ہریالی کے کردار اردو فکشن کو ان کے ناقابل فراموش تھے ہیں۔ بہترین کرداروی فن کار تخلیق کر سکتا ہے جو غیر معمولی ذہانت رکھتا ہو، جس کا تجربہ وسیع ہو اور انسانی نفسیات پر جس کی گہری نظر ہو۔ مولوی صاحب نے زندگی کے عجیب نشیب و فراز دیکھے تھے، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا، اللہ نے انھیں غضب کا حافظہ عطا کیا تھا اور بلا کی ذہانت بخشی تھی۔ انھوں نے زندگی میں بہت ٹھوکریں کھائی تھیں ابتدائی تعلیم ایک مسجد میں رہ کر حاصل کی تھی گھر گھر گداگری کرکے پیٹ کی آگ بجھائی تھی، زنان خانوں میں ایک طرح سے خادم کے فرائض انجام دیے تھے، بہت سے گھروں کا مصالحہ پیسا تھا۔ اس آگ کے دریا سے گزر کر ہی انھوں نے ترقی کی منزلیں طے کیں اور اعلا مناصب تک پہنچے۔ زندگی کے اس سفر میں ہر طرح کے لوگوں کو دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ جب ناول لکھنے کا وقت آیا تو یہ سارے تجربے کام آئے اور اسی کے سب وہ ایسے بچے ایسے اصلی اور ایسے لافانی کردار تخلیق کر سکے۔

تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نذیر احمد کی کردار نگاری بے داغ نہیں۔ اس کا ایک عیب بہت نمایاں ہے۔ کوئی انسان نہ صرف نیک ہو سکتا ہے نہ صرف بد بلکہ نیکی اور بدی دونوں اس میں شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ مگر ان کے کردار یا تو صرف عیبوں کا مجموعہ ہیں یا صرف خوبیوں کا مجسمہ۔ اس لیے پروفیسر آل احمد سرور کا ارشاد ہے کہ ان کے کردار یا تو فرشتے ہوتے ہیں یا پھر شیطان انسان نہیں ہوتے۔ کیونکہ انسان تو وہ ہے جس میں خامیاں اور خوبیاں گھل مل جائیں۔ مثال کے طور پر مرزا ظاہر دار بیگ کو نیچے ۔ یہ بزرگوار عیاری، مکاری، ظاہرداری کا مجموعہ ہیں۔ شروع سے آخر تک ایسے ہی رہتے ہیں۔ ہو نہیں سکتا کہ کہیں اور کسی موقعے پر ان سے کوئی نیکی سرزد ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے کردار ایک نقاد کے الفاظ میں مٹی کے مادھو ہیں۔ جیسے شروع میں ہیں ویسے ہی آخر تک رہیں گے۔ ان میں ارتقا معدوم ہے جبکہ حالات انسان میں تبدیلیاں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ مولوی صاحب ایک غضب اور کرتے ہیں۔ وہ ہر کردار کا نام ایسا رکھتے ہیں جس سے اس کے عادت مزاج اور خصلت کا شروع ہی سے پتا لگ جاتا ہے۔ مثلاً نصوح نام ہے تو وہ ضرور نصیحت کرے گا جس بہن کا نام اکبری ہے وہ ضرور بڑی ہوگی۔ اصغری ضرور چھوٹی ہوگی۔ کلیم کلام کا ماہر ہو گا، ظاہر دار بیگ میں ظاہرداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوگی۔ فہمیدہ صاحب فہم عورت ہوگی۔ مرزا زبردست بیگ سے کوئی جیت نہ سکے گا۔ اس خصوصیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا گیا کہ نذیر احمد ناول نگار نہیں تمثیل نگار ہیں مگر یہ کہنا نا انصافی ہے۔

بهر حال ان چند خرابیوں کے باوجود مولوی نذیر احمد کی کردار نگاری قابل رشک ہے کہ انھوں نے بہت سے جیتے جاگتے کردار پیش کیے جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے

زبان و بیان پر مولوی نذیر احمد کو بہت عبور حاصل ہے۔ ان کی اصل تعلیم عربی زبان و ادب کی تھی۔ اس لیے ان کی زبان میں عربی الفاظ کی بہتات ہے۔ عمر کا ابتدائی حصہ دہلی میں گزرا تھا اور کم عمر تھے اس لیے بے تکلف گھروں میں جاتے تھے۔ کھانے کے عوض مختلف خدمات انجام دیتے تھے۔ اسی وجہ سے دہلی کی زبان اور دہلی کے محاورے نوک زبان تھے۔ ساری زندگی ان محاورات کا کثرت سے استعمال کرتے رہے۔ ناول کی زبان آسان اور سادہ ہونی چاہیے ناکہ قاری کی توجہ واقعات پر جمی رہے۔ مولوی صاحب کی زبان میں عربی الفاظ کی بہتات اور دہلی کے محاورات کی کثرت کھٹکتی ہے۔ آگے چل کر ان میں کمی آتی گئی اور زبان صاف ہوتی چلی گئی۔ انھیں زبان پر ایسی قدرت حاصل ہے کہ آسان زبان لکھنے پر آتے ہیں تو بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے ناولوں سے اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

مکالمہ نگاری میں نذیر احمد کو ایسی مہارت حاصل ہے کہ کم ناول نگاروں کو حاصل ہوگی۔ سبب یہ ہے کہ ہر طبقے کو لوگوں سے ان کا واسطہ رہا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کس کردار کی زبان سے کیا مکالمے ادا ہو سکتے ہیں۔ انسانی نفسیات سے وہ گہری واقفیت رکھتے تھے۔ مکالمے سُن کر ہم بہ آسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا ادا کرنے والا کون ہے، کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا کیسا مزاج ہے۔ ” مراۃ العروس ” اور “بنات النعش “ ان کے ابتدائی ناول ہیں۔ ان کی تصنیف کے وقت تک نذیر احمد کو ناول نگاری کے فن پر پوری طرح عبور حاصل نہیں ہوا تھا مگر مکالمہ نگاری پر انھیں اس وقت بھی پوری گرفت حاصل تھی۔ اس کا ثبوت اکبری اور اصغری کے مکالمے ہیں جن سے ان کے عادات و اطوار پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ دونوں بہنیں اور “بنات النعش” کی حسن آرا اور محمودہ بالکل وہی مکالمے ادا کرتی ہیں جو اس زمانے کی عورتوں کے منہ سے ادا ہو سکتے تھے۔

توبتہ النصوح” میں کلیم شاعرانہ انداز میں گفتگو کرتا ہے۔ مرزا ظاہردار بیگ کے مکالموں سے عیاری ومکاری عیاں ہے۔ ابن الوقت اور حجتہ الاسلام کے مکالے ذرا طویل سہی مگر دلچسپ اور حسب حال ہیں۔ ”فسانہ مبتلا ” میں میر متقی کی آمد پر بھانڈ چو طنزیہ گفتگو کرتے ہیں وہ بے حد دلچسپ ہے۔

ظرافت مولوی صاحب کے مزاج میں رچی بسی ہوئی تھی۔ اس ظرافت نے ان کے ناولوں کو حد درجہ دلچسپ بنا دیا ہے۔ جگہ جگہ ظرافت کی پھلجڑیاں سی چھوڑتے چلتے ہیں اور اس کارگر حربے سے قاری کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔ بار بار چٹکلے سناکر قاری کو ہنسائے جاتے ہیں۔ توبتہ النصوح“ میں مرزا ظاہر دار بیگ کے مضحکہ خیز کردار نے جان ڈال دی ہے۔ ”فسانہ مبتلا میں ظرافت کا اور بھی زیادہ مواد موجود ہے۔ بھانڈوں کی گفتگو سے اس ناول میں مزاح کا عصر پیدا کیا گیا ہے۔ بعض جگہ یہ ظرافت بے محل ہو گئی ہے اور ناگوار ہوتی ہے۔
اہل نظر کا ایک حلقہ ایسا ہے جو نذیر احمد کے ناولوں کی خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے، انھیں ناول تسلیم نہ کرتے ہوئے قصوں اور تمثیلوں کا نام دیتا ہے، کردار نگاری کی خامی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اکثر قصے انگریزی ناولوں سے اخذ کیے ہیں۔ مراۃ العروس رچرڈسن کے قصے سے ماخوذ ہے۔ بنات النعش ٹامس ڈے کے ہسٹری آف سین فورڈ اینڈ میٹرن سے متاثر ہو کر انسٹر کبر کا عکس نظر آتا ہے
لکھا گیا ہے۔ توبتہ النصوح میں ڈینیل ڈیفو کے فی گر یہ کوئی عیب نہیں۔ بعض خامیوں اور اردو فکشن کا قیمتی سرمایہ ہیں اور انہی کی بنیاد پر آگے چل کر اردو ناول کا قصر بلند تعمیر
ہوا۔
وریوں کے باوجود نذیر احمد کے ناول

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *