مومن خان مومن کی مختصر سوانحی خاکہ:
مومن کے خاندان کو طبابت سے بڑا علاقہ تھا ۔ شاہ عالم کے عہد میں اس خاندان کے دو بھائی شاہی دربار سے منسلک ہوئے ۔ اپنی فن طبابت کے بلبوتے پر یہ دو بھائی شاہی دربار میں بے حد مقبول ہوئے شاہ نے ان کو بڑی جاگیر سے نوازا ۔ انگریزوں کی آمد کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان کی یہ جاگیر ضبط کر لی ۔ لیکن ایک قلیل رقم کو ان کو ملتا رہا جس سے گزر بسر مشکل سے ہو سکتی تھی ۔ مومن دہلی کے کوچہ چیلان میں 1801 میں پیدا ہوئے . انھوں نے مروجہ علوم کے علاؤہ نجوم ، عمل ، طب ، ریاضی، شطرنج اور موسیقی کی طرف بھی توجہ دی۔ طب انھوں نے اپنے والد اور چچا سے سیکھا
طبیب وہ ہوں کہ ہو سوز سینہ بلبل
نظارہ رخ گل فام سے مجھے محسوس
ان کو نجوم سے بھی خاص مناسبت تھی ۔ ان کے مزاج میں ایک خاص انا اور بے فکری تھی ۔ انھیں جب دہلی کالج کی ملازمت پیش کی گئی تو انھوں نے انکار کر دیا ۔ انھوں نے کسی شاہ کی مدح میں قصیدہ نہ لکھا بس ایک قصیدہ راجہ پٹیالہ اور نواب ٹونک کو شکریہ ادا کرنے اور ایک سے معزرت خواہ کرنے کے لیے لکھا انھوں نے کل نو قصیدے لکھے باقی مذہبی قصائد ہے ۔ مومن عاشق مزاج انسان تھے انھوں نے چھے مثنویاں لکھی جن میں اپنے چھے معاشقوں کا ذکر ملتا ہے ۔
آئے غزال چشم سدا میرے دام میں
صیاد ہی رہا میں گرفتار کم ہوا
مومن خاص غزل کے شاعر ہیں ہر چند کہ دیگر اصناف میں بھی انھوں نے قلم اٹھایا ۔ ان کے ہاں ایک مکمل اور کامل معشوق ملتا ہے ۔ ان کے ہاں تلون مزاجی ملتا ہے یعنی وہ حسن پرست تھے
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہوگئے ناچار جی سے ہم
ان کے ہاں امرت پرستی بہت کم موجود ہے صرف ایک دو جگہ ہمیں ایسے اشعار ملتے ہیں
ڈوب مرئے کیوں نہ غیرت سے جب اے مومن نہائے
غیر کے ہمراہ وہ وہ طفل برہمن آب میں
وگرنہ زیادہ تر پردہ نشینوں اور اسی طرح کے ازکار ملتے ہیں
ہجر پردہ نشیں پہ ملتے ہیں
زندگی پردہ ور نہ ہو جائے
آخر عمر میں وہ تمام دیگر باتوں سے تائب ہو گئے اور حضرت سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد کی حمایت کرنے لگے انھوں نے غالب اور ذوق کی نسبت کم عمر پائی 1852 میں چھت سے گرنے کے کچھ عرصے بعد وفات پاگئے ۔ ان کے وفات پہ غالب نے یہ اشعار کہیں
وقت است کہ روئے دلخراش ہمہ عمر
خونابہ دل زد ید ہاشم ہمہ عمر
کافر باشم اگر بہ مرگ مومن
چوں کعبہ سیاہ پوش نباشم ہمہ عمر