مٹی کو چاک رنگ کو تصویر چاہیے
ہر مملکت کو صاحب تسخیر چاہیے
اک عکس چاہیے ہے سر شیشئہ شکست
وہ عکس بے اردہ و تدبیر چاہیے
اک شام تیرے ساحل بے اختیار پر
اک مرگ بے نوشتئہ تقدیر چاہیے
پرواز کو بہم نہ ہوے ہفت آسماں
افتادگی کو خاک ہمہ گیر چاہیے
وحشت سرائی ثابت و سیارہ کے عوض
اقلیم خواب و ملک اساطیر چاہیے
کھینچا بہت ہے شورش دیوانگی کے سر
اس سرکشی کو پردہ شمشیر چاہیے
افضال احمد سید
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار