میرا جی کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا۔ آپ کے آباؤ اجداد کشمیر سے ہجرت کر کے لاہور آئے ۔ آپ کی پیدائش 25 مئی 1912 کو لاہور میں ہوئی ۔ آپ کے والد کا نام مہتاب الدین تھا جو کہ ریلوے میں اسٹنٹ انجینئر تھے ۔ آپ کی والدہ کا نام زینب بیگم تھا ۔ جو کہ آپ کے والد کی دوسری بیوی تھیں ۔ پندرہ ماہ کی عمر میں آپ کی والدہ آپ کو گجرات لے گئیں ۔ یہاں آپ کے والد کا تقرر ہوا تھا ۔ پانچویں تک یہیں گجرات میں تعلیم حاصل کی ۔ پھر اس کے بعد والد کا تبادلہ بلوچستان ہو گیا ۔ چند ماہ سکھر اور صوبہ سندھ کے دیگر مقامات پر رہے ۔ سندھ کے مختلف سکولوں سے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے گجرات کے ہندو تہذیبی ماحول کو اپنے اندر جذب کیا ۔ صوبہ سندھ کی تہذیب اور ثقافت کو اپنایا۔ نویں جماعت میں آپ کا داخلہ لاہور میں کروا دیا گیا ۔ یہاں آپ کو ایک بنگالی لڑکی میرا سین سے عشق ہو گیا اور آپ نے اپنا نام میرا سین رکھ لیا ۔ اس عشق کے بعد سکول کو ترک کر دیا اور خود کو مطالعے میں غرق کر دیا ۔ والد کے دوست مولانا صلاح الدین احمد کے رسالے “ادبی دنیا” میں ملازمت اختیار کی ۔ اور نائب مدیر کی حیثیت سے لکھتے رہے ۔ اس زمانے میں حلقہ اربابِ میں ذوق قیوم نظر کے کہنے پر شرکت کی ۔ ادبی دنیا میں اپنے مضامین کی وجہ سے آپ کی پہلے ہی شہرت ہو چکی تھی ۔ حلقہ اربابِ ذوق میں جدید نظمیں پیش کرتے رہے ۔ چند سالوں میں ان تجربات اور تجزیات پر ایک کتاب ” اس نظم میں ” شائع ہوئی ۔ جس میں مختلف نظموں کے تجزیے ماجود ہیں ۔ 1942 میں لاہور ریڈیو سے منسلک ہوئے ۔ پھر دہلی ریڈیو سٹیشن پر ملازمت اختیار کی ۔ 1946 تک دہلی میں ہی مقیم رہے ۔ اس دوران “ساقی” دہلی میں باقاعدہ لکھنے لگے ۔ 1946 میں اختر الایمان کے ذریعے بمبئی پہنچے ۔ اور ان کے رسالہ خیال کے مرید بن گئے ۔ باکثرت نوشی اور دیگر نشوں کی بناپر بیمار ہوئے گئے ۔ پہلے نمونیے کا حملہ ہوا پھر ذہنی توازن کھو بیٹھے ۔ یوں 3 نومبر 1949 کو محض ساڑھے سینتیس برس کی عمر میں وفات پا گئے ۔
تصانیف
میرا جی کے گیت 1943
میرا جی کی نظمیں 1944
گیت ہی گیت 1944
پابند نظمیں 1968
تین رنگ 1968
ان تمام مجموعوں کو کلیات میرا جی کے نام سے 1988 میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے سنگ میل سے شائع کروایا ۔
اس نظم میں ( نئی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ ) 1944
نگار خانہء ( سنسکرت کی ایک کتاب نٹنی متن کا ترجمہ ) 1950
مشرق و مغرب کے نغمے ( عالمی دنیا کے مشہور شاعروں کا تعارف اور ان کی نظموں کے تراجم) 1958
خیمے کے آس پاس ( عمر خیام کی چند رباعیات کا اردو ترجمہ ) 1964
میرا کی نظموں کے موضوعات میں ابہام ہے ۔ میرا جی کہتے ہیں ” ابہام ایک اضافی تصور ہے اور پھر زندگی بھی تو ایک دھندلکا ہے ایک بھول بھلیاں ، ایک پہیلی ۔ اسے بوجھ نہ سکے تو ہم زندہ نہیں مردہ ہیں”
اسی طرح میرا جی کی نظموں میں بھی بھول بھلیاں ہیں ۔ ایک ابہام ہے جو قاری کو الجھا دیتا ہے ۔ جس کے باعث اکثر لوگ ان کی نظموں کو بے ربط کہتے ہیں ۔ میرا جی کے نظموں کو سمجھا آسان نہیں ہے ۔ میرا جی کہتے ہیں ” میری نظمیں الگ ہیں اور صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو انہیں سمجھنے کے اہل ہوں ”
میرا جی فرانس کے علامت نگاروں سے بہت متاثر تھے ۔ اگر ہم میرا جی کو اردو ادب میں علامت نگاری کا باوا آدم کہیں تو غلط نہ ہو گا ۔ میرا جی کی نظموں میں چاند ، سمندر،سایہ، رات ، اندھیرا ، اجالا اور نیلگوں جیسی علامتیں استعمال ہوتی ہیں ۔ میرا جی فرائیڈ کے نظریہ تحلیل نفسی سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ جس کی بناپر ان کی نظموں میں جنس ایک اہم موضوع ہے ۔ میرا جی کی شاعری کی فضا قدیم ہندوستانی ہے ۔ میرا جی ہندو اساطیر کو اپنے من میں بسائے ہوئے تھے ۔ اگر ہم ان کی علامتوں پر سرسری نظر ڈالیں تو میرا جی ہمیں قدیم ہندوستان میں سانس لیتے معلوم ہوں گے ۔ میرا جی کے ہاں میرا بائی کی طرح محبوب کا تصور جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے ۔ میرا جی کو تصور سے پیار ہے ۔
ہاں تصویر کو میں اب اپنے بنا کر دولہا
اسی پردے کے نہاں خانے میں لے جاؤں گا
( لب جوئبارے)
اجنبی ، انجان عورت رات کی ، جہالت ، دن کے روپ میں رات کہانی، بعد کی اڑان ۔ محبت ، لب جوئبارے ، آدرش ، دھوکا جیسی نظمیں ان کی تخلیقی عمل کا مظہر ہیں ۔
میرا جی کے پاس ہاٹنے اور لارنس کی طرح جسم اور روح کا سنجوگ تھا ۔
اور رات کی تاریکی میں ہی دل کو دل سے ملائے ہیں
پریمی، پریتم
ہاں ، ہم دونوں ۔
(سنجوگ )
میرا جی کی نظم “میں ڈرتا ہوں مسرت سے “میں ہمیں ایک دنیا سے فرار حاصل کرتا انسان نظر آتا ہے ۔ جو مسرت سے ڈرتا ہے اور غم میں راحت محسوس کرتا ہے ۔
میں ڈرتا ہوں مسرت سے
کہیں یہ میری ہستی کو
بھلا کر تلخیاں ساری
بنا دے دیوتاؤں سا
تو پھر خواب ہی بن کر گزاروں گا
زمانہ اپنی ہستی کا
( میں ڈرتا ہوں مسرت سے )
میرا جی اپنی نظموں کہیں ہندوستان کی تہذیب کو دیکھاتے ہیں تو کہیں علامتوں کے استعمال سے انسانی نفسیات کو بیان کرتے نظر آتے ہیں ۔ کہیں کلرک کا نغمہ محبت گاتے نظر آتے ہیں تو کہیں ہر چیز کے فنا ہونے کا ذکر کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساگر کہاں ہے جو تھا موجزن
کوئی ساگر نہیں ، باغ۔۔۔۔۔۔۔۔صحرا نہیں کوئی پربت نہیں
آہ کچھ بھی نہیں
(فنا)
تحریر از خدیجہ منشاء