میرا من اور باغ و بہار

میرا من اور باغ و بہار

فورٹ ولیم کالج ۱۸۰۰ء میں قائم ہوا ۱۸۱۴ء تک اس کی حیثیت ایک زندہ ادارے کی رہی اور ۱۸۵۴ء میں اس کا با ضابطہ طور پر خاتمہ ہوا۔ کالج کی اس چون سالہ زندگی میں انہیں اہل قلم نے کم و بیش ساٹھ کتابیں تیار کیں لیکن شہرت دوام ان میں سے صرف میرا من کی باغ و بہار کو حاصل ہوئی کیونکہ جدید اردو نثر کی بنیاد باغ و بہار کے اسلوب پر ہی رکھی گئی۔ غالب نے جب اردو مکتوب نگاری کی طرف توجہ کی تو باغ و بہار کا اسلوب ان کے پیش نظر تھا۔ شاید یہ اس کتاب کے گہرے مطالعے کا ہی اثر تھا کہ سادگی میں جو جادو ہے اس کے وہ بھی پوری طرح قائل تھے۔ سرسید نے جب اردو میں علمی زبان کو رواج دیا تو خطوط غالب کی روایت ان کے سامنے تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ میرامن کی باغ و بہار نہ ہوتی تو غالب کے اردو خطوط نہ ہوتے اور یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں تو سرسید کی علمی نشر بھی جنم نہ لیتی۔ آئیے اب میرا من اور باغ و بہار کے بارے میں کچھ مزید معلومات حاصل کریں۔

میرامن کے حالات زندگی تاریکی کے پردے میں گم ہیں۔ ان کے بارے میں ہمیں بہت کم باتوں کا علم ہے اور جو کچھ معلوم ہے اس کی بنیاد وہ تشنہ معلومات ہے جو خود انھوں نے باغ و بہار کے دیباچے میں اپنے بارے میں فراہم کی ہے۔
میرامن کے بارے میں صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ ان کے بزرگ مغل بادشاہ کے عہد حکومت سے شاہ عالم گیر ثانی کے زمانے تک دربار شاہی سے وابستہ رہے اور خانہ زاد موروثی و منصب دار قدیمی کہلائے۔ 1711 میں احمد شاہ ابدالی نے شہر دلی کو تاراج کر دیا اور سورج مل جاٹ نے ان کی موروثی جائداد پر قبضہ کر لیا تو میرامن اس شہر کو جس میں ان کا نال گڑا تھا خیر باد کہہ کے عظیم آباد (پٹنہ بہار چلے آئے۔ کچھ عرصہ یہاں رہے مگر روزگار کی کوئی صورت نہ بنی۔ آخر کار یہاں سے تن تنها کشتی میں سوار ہو کے کلکتہ پہنچے۔ کچھ دنوں بے روزگار رہے۔ پھر نواب دلاور جنگ نے اپنے چھوٹے بھائی میر محمد کاظم خاں کا اتالیق مقرر کر دیا۔ بظاہر یہاں نباہ نہ ہوئی۔ تقریبا دو برس بعد میر بہادر علی حسینی کے ذریعے جان گل کرسٹ تک رسائی ہوئی اور فورٹ ولیم کالج میں ملازمت مل گئی۔ میرامن نے گل کرسٹ کا ذکر بڑی شکر گزاری اور احسان مندی کے ساتھ کیا ہے اور لکھا ہے کہ طالع کی مدد سے ایسے جواں سال مرد کا دامن ہاتھ لگا ہے چاہیے کہ دن کچھ بھلے آویں۔۔ نہیں تو یہ بھی غنیمت ہے کہ ایک ٹکڑا کھا کر پاؤں پھیلا کر سو رہتا ہوں اور گھر میں دس آدمی چھوٹے بڑے پرورش پا کر دعا اس قدر دان کو کرتے ہیں۔ خدا قبول کرے۔ کالج قائم ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد میرامن اس کے مصنفین میں داخل ہو گئے۔ گل کرسٹ کی فرمایش پر باغ و بہار لکھی اور انھی کی ہدایت کے مطابق اس کے لیے بول چال کی عام زبان اختیار کی۔ یہ کتاب ۱۸۰۲ء میں مکمل ہو گئی اور طباعت کے لیے پریس بھیج دی گئی۔ اس کے بعد وہ گنج خوبی کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ اب چند برس اس طرح گزرتے ہیں کہ میرامن کا میں ذکر نہیں آتا۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ فرض کر لیا کہ ان کا انتقال ہو گیا لیکن یہ درست نہیں۔ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر جون ۱۸۰۶ء کو کالج کے ایک طالب علم نے شکایت کی کہ میرامن نے اسے پڑھانے سے انکار کردیا ہے۔ میرامن سے باز پرس کی گئی جس پر انھوں نے اپنی کبر سنی یعنی بڑھاپے کا عذر کیا۔ اس لیے ان کا واجب تنخواہ اور چار مہینے کی مزید تنخواہ حق خدمت کے طور پر ادا کر کے انھیں ملازمت، سے سبک دوش کر دیا گیا۔ بہت بوڑھے تو وہ ہو ہی چکے تھے۔ ہو سکتا ہے دو ایک برس بعد ان کا انتقال ہو گیا ہو ۔ سبکدوشی کے واقعے کے بعد کہیں ان کا ذکر نہیں میرامن شاعر بھی تھے اور لطف تخلص کرتے تھے مگر تذکرہ نگاروں نے ان کا ذکر کا شاید ضروری نہیں سمجھا ورنہ ان کے بارے میں کچھ اور معلومات حاصل ہو سکتی تھی ۔

باغ و بہار میرامن کا وہ کارنامہ ہے جو ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ حالانکہ یہ ان کی طبع زاد تصنیف نہیں فارسی کے ایک بے حد مقبول قصے چہار درویش کا ترجمہ ہے۔ اس کے بارے میں میرامن فرماتے ہیں کہ یہ قصہ چہار درویش کا ابتدا میں امیر خسرو دہلوی نے اس تقریب سے کیا کہ حضرت نظام الدین اولیا زری زر بخش جو اُن کے پیر تھے اور درگاہ ان کی دلی میں قلعے سے تین کوس لال دروازے کے باہر نیا دروازے سے آگے لال بنگلے کے پاس ہے۔ ان کی طبیعت مندی ہوئی۔ تب مرشد کا دل بہلانے کے واسطے امیر خسرو یہ قصہ ہمیشہ کہتے اور تیمارداری میں حاضر رہتے ۔ اللہ نے چند روز میں شفادی۔ تب انھوں نے غسل صحت کے دن یہ دعا دی کہ جو کوئی اس قصے کو سنے گا خدا کے فضل سے تندرست رہے گا۔ جب سے یہ قصہ فارسی میں مروج ہوا۔ یہ بیان تو غلط ہے کیوں کہ یہ قصہ امیر خسرو کی تصنیف نہیں ، ان سے بہت پہلے کا ہے مگر اتنی بات ضرور سچ لگتی ہے کہ کسی درویش کامل کی دعا اسے ایسی لگی کہ آج تک اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ میر محمد حسین عطا خاں تحسین باغ و بہار کی تکمیل سے تقریباً تیں برس پہلے قصہ چہار درویش کو فارسی سے اردو میں منتقل کر چکے تھے۔ تحسین ایک مایہ ناز خطاط بھی تھے اور مرضع رقم کے خطاب سے سرفراز تھے۔ اس مناسبت سے انھوں نے کتاب کا نام انشاے نو طرز مرضع ” رکھا مگر اس نے” نو طرز مرضع ” کے نام سے شہرت پائی۔ اس کتاب کی عبارت فارسی آ میز اور انتہائی مرضع ہے۔ استعاره و تشبیہ کی بھرمار ہے۔ زبان ایسی پر تصنع ہے کہ مولوی عبدالحق کے الفاظ میں بعض اوقات پڑھتے پڑھتے جی متلانے لگتا ہے۔ ایسی کتاب کالج کے طالب علموں کے لیے کیسے موزوں ہو سکتی تھی۔ گل کرسٹ نے اسے آسان اور عام فہم زبان میں منتقل کرنے کی ہدایت دی۔ فارسی چهار درویش بھی میرامن کے سامنے رہی ہوگی لیکن انھوں نے خاص طور پر تحسین کی نو طرز مرضع ” کو ہی سامنے رکھا اور اپنی ” کتاب کے سرورق پر اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ”باغ و بہار تالیف کیا ہوا میرامن دلی والے کا ماخذ اس کا نو طرز مرضع کہ وہ ترجمہ کیا ہوا عطا حسین خاں کا ہے فارسی قصہ چہار درویش ہے۔ “
میرا من باغ و بہار کے دیباچے میں لکھتے ہیں :
“خدا وند نعمت، صاحب مروت، نجیبوں کے قدردان جان گل کرسٹ صاحب نے (کہ ہمیشہ اقبال ان کا زیادہ رہے، جب تک گنگا جمنا ہے) لطف سے فرمایا کہ اس قصے کو ٹھیٹھ ہندوستانی گفتگو میں جو اردو کے لوگ ہندو مسلمان عورت مرد لڑکے بالے خاص و عام آپس میں بولتے چاہتے ہیں ترجمہ کرو۔ موافق حکم حضور کے میں نے بھی اسی محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔”
میرا من گل کرسٹ کا حکم بجالائے ۔ دلی کے رہنے والے تھے۔ بول چال کی زبان پر قدرت رکھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ انھوں نے عوامی زبان میں پوری کتاب لکھ دی جو جدید اردو نثر کا سنگ بنیاد ثابت ہوئی۔

باغ و بہار کا اسلوب

اردو نثر کی تاریخ میں باغ و بہار کو بے مثال اہمیت حاصل ہے۔ اردو میں مختصر افسانے کا جنم تو بہت بعد میں ہوا لیکن باغ و بہار میں پہلی بار افسانے کی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے۔ اس میں ایک بادشاہ اور چار درویشوں کی کہانیاں پیش کی گئی ہیں جنھیں تمہید اور خاتمے کے ذریعے آپس میں جوڑ دیا گیا ہے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک داستان نہیں بلکہ پانچ کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ گویا یہ اردو افسانے کی صبح کاذب ہے۔ دوسری خاص بات یہ کہ اس کتاب میں دہلی کی تہذیب و معاشرت کی مکمل مرقع کشی نظر آتی ہے۔ کسی شہر و دیار کا ذکر کیا جا رہا ہو مگر بچشم غور دیکھے تو دلی کے درو دیوار پیش نظر ہو جاتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں اہم سی مگر “باغ د بہار کی سب سے بڑی خوبی اس کا اسلوب بیان ہے۔

اردو نثر کا پہلا شاہکار باغ و بہار ہے۔ اس سے پہلے بھی اردو نثر میں کتابیں موجود تھیں مگران کا اندر از مصنوعی ، زبان گنجلک اور فارسی آمیز تھی۔ ”باغ وبہار ” آسان سادہ اور عام قسم زبان کا پہلا نمونہ ہے۔ آگے چل کر اردو نثر نے جو راہ اختیار کی اس کا پتا اس کتاب نے دیا تھا۔ غالب نے اپنا چراغ میر امن کے چراغ سے ہی جلایا ۔ مطلب یہ کہ میرا تن نے جس طرح کی زبان استعمال کی تھی اس کی ذرا نکھری ہوئی شکل میں غالب نے خط لکھے اور سرسید کی علمی نثر کے لیے راستہ ہموار کر دیا۔ میر امن نے جان گل کرسٹ کی فرمایش پر اس کتاب کے لیے عام بول چال کی زبان کا انتخاب کیا تھا۔

بول چال کی زبان تحریری زبان یا یوں کہنا چاہیے کہ کتابی زبان سے مختلف ہوتی ہے۔ میری زبان میں قواعد یعنی گریمر کی پابندی کی جاتی ہے ، جملے اور فقرے مکمل ہوتے ہیں، رکھ رکھاؤ کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ ان سب باتوں سے ذرا بہت سے لفظ محذوف ہو جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کم ہو جاتے ہیں۔ فقرے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ دو فقروں کو جوڑنے والے لفظ اکثر خارج کر دیے جاتے ہیں۔ آسان لفظوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ میرا من نے یہی زبان استعمال کی جیسا کہ ان کا دعوا ہے۔ ” جو لڑکے بالے عام و خاص بولتے چالتے ہیں ، اسی محاورے سے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔ “ اس کے لیے انھوں نے جو وسائل اختیار کیے ، مطلب یہ کہ جو طریقے اپنائے ان کی تفصیل مع مثالوں کے یہاں پیش کی جاتی ہے :

1-لفظوں کی تکرار جیسے گھر گھر محلے محلے اور تابع مہمل جیسے روتا دھوتا، پکڑ دھکڑ کا استعمال

مثال : برس دن کے عرصے میں ہرج مرج کھینچتا ہوا شہر نیم روز میں جاپہنچا جتنے وہاں آدمی ہزاری اور بزاری نظر پڑے سیاہ پوش تھے۔ جیسا احوال سنا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ پہلی تاریخ سارے لوگ اس شہر کے چھوٹے بڑے لڑکے بالے امراء بادشاہ عورت مرد ایک میدان میں جمع ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔اور فرمایا کہ احوال شہزادے کے طالعوں کا دیکھو اور جانچو اور جنم پتری درست کرو اور جو کچھ ہوتا ہے حقیقت پل پل گھڑی گھڑی اور پر پسر اور دن دن مہینے مینے برس برس کی مفصل حضور میں کرو۔۔۔

… سارا بدن میرا پونچھ پانچھ کر خون و خاک سے پاک کیا اور شراب سے دھودھا کر زخموں کو ٹانکے مرہم لگایا۔

2 – اضافی اور توصیفی ترکیبوں کو اس طرح مسل بنایا کہ اضافت کو ترک کر کے کا۔ کے ۔ کی استعمال کیے مثلا حکم حاکم کی جگہ ہم کہیں حاکم کا حکم یا حکم حاکم کا۔

مثال : بموجب حکم بادشاہ کے اس آدھی رات میں کہ عین اندھیری تھی ملکہ کو ایک میدان میں کہ وہاں پرندہ پر نہ مارتا تھا انسان کا تو ذکر کیا ہے چھوڑ کر چلے آئے۔
3- محاوروں اور گھریلو کہاوتوں کا استعمال
مثال : اونٹ چڑھے کتا کاٹے ، ادھر چوکی ڈومنی گائے تال بے تال۔
جو مرد نکھٹو ہو کر گھر بیتا ہے اس کو دنیا کے لوگ طعنہ مہنا
دیتے ہیں۔
4. ہندی الفاظ کا بے تکلف استعمال نظر آتا ہے مثلاً راه بانٹ جنم بھومی سنگت گیان بیراگ بیر وغیرہ۔
5. متروک الفاظ یعنی ایسے الفاظ کا استعمال جو اب بولے یا لکھے نہیں جاتے جیسے کبھو کد ھو ایدھر اودھر تلکھنا، جاوے وغیرہ –
6. ایسی تشبیہوں کا استعمال جو بالکل سامنے کی ہیں اور نثر کے لیے موزوں میں کیونکہ ان سے خیال روشن ہو جاتا ہے مثلا پھول سابدن سوکھ کر کانٹا ہو گیا اور وہ رنگ جو کندن سا دمکتا تھا۔۔۔۔۔۔
7. عام فہم استعارات جیسے فرزند کہ زندگانی کا پھل ہے اس کی
قسمت کے باغ میں نہ تھا۔
– 8 ۔بعض شعری وسائل سے بھی کام لیا کیونکہ وہ اس زمانے کا چلن تھا۔ کہیں کہیں منائع بدائع کا استعمال نظر آجاتا ہے جیسے : سب کچھ دیا، اندھیرے گھر کا دیا نہ دیا۔ یہ بات سن کر سُن ہوا (ایہام) جب تجھے دیکھتی ہوں باغ باغ ہوتی ہوں۔ تو نے مجھے نہال کیا (رعایت
لفظی)
9 – میرامن نے تحسین کے برعکس تصنع، تکلف عبارت آرائی سے تو پر ہیز کیا لیکن کہیں کہیں جمع اور قافیے کا اہتمام کیا ہے مثال : میں نے کہا اجی پھر کب ملاقات ہوگی۔ یہ تم نے کیا غضب کی بات سنائی۔ اگر جلد آؤ گی تو مجھے جیتا پاؤگی نہیں تو
پچھتاؤ گی۔ اگرچہ ہر طرح کا آرام تھا پر دن رات چلنے سے کام تھا۔

10 – تکلم کا انداز بات چیت کا لب و لهجه طرز تخاطب “باغ و بہار “ کے اسلوب کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ ہم کہانی پڑھ نہیں رہے سُن رہے ہیں۔ میران قاری بلکہ کہنا چاہیے کہ ناظر کو کسی حالت میں نظر انداز نہیں کرتے ۔ قصہ سنانے کے دوران ”کان دھر کر سننے کی فرمائیش کرتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں اب خدا کے کارخانے کا تماشا سنو “ اس سلسلے کے بعض اقتباس ملاحظہ ہوں :
… خداوند! آپ قدردان ہیں۔ حاجت عرض کرنے کی نہیں۔ التی تارا اقبال کا چمکتا رہے
محض صاحب کی ملاقات کی آرزو میں یہاں تک آیا ہوں۔ کہنے لگا۔ احمق تو کیوں روتا ہے ؟ بولا ارے ظالم یہ تو نے کیا بات کہی۔ میری بادشاہت لٹ گئی۔ اور اس طرح کا تخاطب سن اے جوان دانا سن اے عزیز اے بادشاہ ! یہ جوانمرد جو داہنی طرف کھڑا ہے……
یہ ہیں میرامن کی نثر کی خصوصیات یہاں اختصار کے خیال سے صرف دس اہم خصوصیات کا مجمل بیان کیا گیا۔ سید عبداللہ نے میر امن کی ”باغ و بہار کو زندہ کتاب اور اس کے اسلوب کو زندہ اسلوب کہہ کر عقیدت کا وہ خراج پیش کیا ہے جس کی وہ بلاشبہ حقدار ہے۔

سنبل نگار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *