غزل
میں چاہتا ہوں آپ سے مجھ کو گلہ رہے
رشتہ یہ گفتگو کا ہمیشہ بنا رہے
چنتا رہوں سخن کے میں تازہ بہ تازہ گل
فکر و نظر میں تازگی یوں ہی سدا رہے
یا رب ! مجھے نصیب ہو اتنا قبولِ عام
دو چار دن تو دوستوں میں تذکرہ رہے
ہر وقت ایک شیریں سخن سے ہو گفتگو
شام و سحر ہی دل ربا جلوہ نما رہے
کرتی رہے یہ جاوداں ہی ذکرِ سیم تن
میری زباں سکوت سے نا آشنا رہے
پردے کے پیچھے فطرتاً وہ کچھ بھی ہو مگر
طارق تمھارے سامنے وہ دل ربا رہے
طارق محمود طارق