تبصرہ
کتاب : دکھیارے
مغموم فضا ، رونقوں سے خالی ہوتی ہوئی تہذیب ، مفلک الحال رعایا ، زرد ہوتا تمدنی رنگ ، سادہ اور سلیس زبان ، مناسب محاورے ، چست پلاٹ ، ایک عجیب و غریب پر اسرایت ، ماضی کی خوبصورت دیواروں پہ غم و اندوہ کی کائی اور اپنی نوعیت کے رم خورہ کردار ۔ یہ کچھ ایسی سامنے کی چیزیں ہیں جو آپ ناول “دکھیارے ” میں دیکھ سکتے ہیں ۔
ناول دکھیارے 2014 میں شائع ہوا ۔ جس کے مصنف تہذیبی شہر لکھنؤ کے باسی جناب انس اشفاق ہیں ان کی کم و بیش 25 کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ خواب سراب اور پری ناز اور پرندے ان کے بہترین ناول ہے ۔
تقریباً ان ناولوں پہ ایک ہی کیفیت طاری ہے ۔
ایک آفت زدہ خاندان جس کو ا ایک ماں صبر استقامت سے جوڑے رکھتی جو ہمہ وقت اپنے بچوں کے لیے پریشان رہا کرتی ہے ۔ مرکزی کردار سب سے چھوٹا بیٹا ہے ، بڑے کے دماغ میں خلل ہے ۔ ماں کسمپرسی کی حالت میں فوت ہو جاتی ہے اور بڑا بھائی چھوٹے کا ایک عرصہ خیال رکھتا ہے ۔ لیکن ہمیشہ کہ طرح اس کا دماغی خلل جنون میں بدل جاتا اور ایک مستقل ٹھکانے پہ نہیں ٹھہرتا. نہ ہی کسی ایک کیفیت میں زیادہ عرصے کے لیے رہ پاتا ہے ، کبھی دماغی حالت ٹھیک ہوجاتی ہے اور کبھی خراب ۔ منجھلا شادی کرتا اور مجنت مزدوری سے زندگی بسر کرتا ہے جبکہ چھوٹا کسی دفتر میں نوکری کرتا ہے ۔ بڑا بھائی کبھی کسی حالت میں تو کبھی کسی حالت میں جگہ بدلتا رہتا ہے بالآخر ایک جگہ پہ چند اجڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ اس کا دل لگ جاتا ۔ چھوٹے کی زندگی بڑے بھائی کے گرد گھومتی رہتی ہے ۔ وہ اس کی خدمت میں وقت صرف کرتا رہتا ہے ۔
اس دوران مصنف ہمیں ناول میں لکھنؤ کے کربلاوں ، امام بارگاہوں ، حویلیوں ، ماتم سراؤں ، برفی کی دکانوں ، حکیموں کے شفا خانوں ، اجرٹے ہوئے سراؤں کیے زوال کا نوحہ بھی سناتا ہے ۔ ساتھ ساتھ لکھنؤ کے رہن سہن ، بود و باش کے بارے میں بھی دلچسپ باتیں بتاتا ہے۔
ناول کے کرداروں کی زندگی ایسی کشتی کی طرح ہے جس کے بیچ ایک سراخ پہلے سے ہی موجود ہو اور وہ آہستہ آہستہ ڈوب رہی ہو اور بل آخر ڈوب جایے ۔ یہی کچھ پورے ناول کا ماحول ہے ۔ بڑے بھائی کی موت ساتھ زندگی کے دکھ سکھ کی کشتی بھی ڈون جاتی ہے. اس بیچ چھوٹا بھائی دو محبتوں ( سائرہ ، شمالہ ) سے بھی جدا ہوتا ہے ۔
یوں ہجر و فراق ، مجبوری و مہجوری سے بھر پور ناول دل میں غموں کا طوفان اٹھا کر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔
ظفر ارشد