نظم

کون سوچا کرے
کون دیکھا کرے
چاندنی رات میں رقص کرتے ہوئے
رنگ بھرتے ہوئے
عشق کرتے ہوئے
کون سوچا کرے

کون سوچا کرے
ایک مسکان کو
دل بیابان کو
ہجر میں وصل کے ایک امکان کو
کھینچھتے کھینچتے
آنکھ رونے لگے
دل بھگونے لگے
نظم ہونے لگے
نظم کرتے ہوئے
کون سوچا کرے

کون سوچے کہ میں کون ہوں
اور یہ گیت گاتا ہوا اجنبی کون ہے
تم سروں سے سروں کو ملاو
دلوں سے دلوں کو ملاو
گنگناو مری جان اور جان لو ہم سبھی کون ہیں

مجھ کو باغ بہاراں سے اٹھتی ہوئی خوشبووں کی قسم
صبح دم پھوٹتی روشنی کی قسم
بلبلوں کی گدازی ء دل کی قسم
زندگی اور زندہ دلی کے سوا موت ہی موت ہے
سو اٹھو اپنے حصے کی رسوائی کو بانٹ لو
اپنی تنہائی کو بانٹ لو
جاو گلشن میں پھولوں سے باتیں کرو
تتلیوں سے محبت کے نغمے سنو
خاک اڑاتے چلو
زخم کھاتے چلو
مسکراتے چلو
رہرووں کو گلے سے لگاتے چلو
جھومتے جھومتے
اپنی مستی میں گم
گنگنگناتے چلو
کون سوچا کرے
کون دیکھا کرے
کون سوچا کرے
کون دیکھا کرے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *