قسم اس وقت کی جب کھیتوں پہ کہرا اترتا ہے
قسم اس پل کی جب سورج کی زردی پھیل جاتی ہے
ہمیں اک گیت گانا ہے
ہمیں ویران قصبوں اور کھلی راہوں میں اپنا نام لینا ہے
ہمیں بے فکر اور بےکار لمحوں میں
چھتوں پر بیٹھ کر اک دھن بنانی ہے
انھیں لمحوں میں جب مصروفیت انسان کو تاراج کرتی ہے
اندھیرے کارخانوں، چمنیوں میں راکھ اڑتی ہے
دھویں کی دھاریاں نیلی ہوا میں پھیل جاتی ہیں
جدیدیت کی ڈائن آسماں پر بال کھولے چیختی ہے
دیکھتی ہے اپنے محکوموں کے پتھر دل
انھیں لمحوں میں اونچی چمنیوں اور کارخانوں سے بہت نیچے
جہاں گلیوں میں پھیکی روشنی ہے
بھوک ہے
لیکن گھروں میں دل مچلتے ہیں
ہمیں اک گیت گانا ہے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار