نظم

نظم

ہوا جو خاکروب ہے زمین و آسمان کی
ہوا کہ جس کے ہاتھ میں ہے باگ کائنات کی
وہ چیختی چنگھاڑتی کریہہ راگنی
جو سارے منظروں کو گرد میں لپیٹ دے
سمیٹ دے
جو اک مہیب رات میں مرا مکان لے اڑی
اور اب میں اپنی تین ٹانگوں والی کرسی پہ
براجمان ہوں
تپائی پہ پرانے ریڈیو کی گونج ہے
بگولے میرا آدھا جسم
گرد میں اڑا چکے
وہ میرے چاروں سمت تھے
ہوا نے میری آنکھ کا نمک چکھا
اور اپنا ہاتھ میری جھریوں پہ پھیر کر ہنسی۔۔۔
ہوا نے مجھ سے بات کی
ہوا جو اک مہیب رات میں مرا مکان لے اڑی
ہوا جو خاکروب ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *