نظم

نظم

پریشاں ہوں
زمانہ آرزو کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے
جو نوکر تھے انہوں نے نوکری اپنی گنوا دی ہے
جو عاشق تھے انہوں نے عاشقی اپنی لٹا دی ہے
جو حاکم تھے وہ ذِلّت اوڑھ کر زنداں میں جا پہنچے
سِسکتے بلبلاتے آرزو کرتے ہوئے بندے
نجانے کون سی منزل کے بن بیٹھے ہیں متلاشی
مگر اک رائیگانی ان کے چہروں پر
نظر آتی ہے روز و شب
کہ جیسے کوئی پروانہ کرے چاہت ضیاء سے تو
شمع اس کو جلا کر مار دیتی ہے
مجھے بھی سیڑھیاں چڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ میں
بلندی کی طرف اک آرزو لے کر
ہوا میں پاوں رکھتا تھا
میں کتنی خاہشوں کو روند کر افلاک پر پہنچا
مگر اب میں یہاں تنہا کھڑا ہوں
اور خموشی مجھ سے باتیں کر رہی ہے

وقاص احمد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×