نفس کی تاب کو یکسر گھٹائے جا رہا ہے

غزل

نفس کی تاب کو یکسر گھٹائے جا رہا ہے
نجانے کون سا غم ہے جو کھائے جا رہا ہے

سراغ منزل مقصود تو ہے پا لیا پر
مرے پیروں کو رستہ کاٹ کھائے جا رہاہے

کہانی میں کہیں بھی خوشنمائی تو نہیں ہے
یہ کیسا شخص ہے پھر بھی سنائے جا رہا ہے

اندھیرا کھا رہا ہے اوٹ میں پلتی کرن کو
یہ سورج شام کی وحشت بڑھائے جا رہا ہے

اسے معلوم ہے کہ زندگی اک فاحشہ ہے
مگر وہ سانس کا رشتہ نبھائے جا رہا ہے

وقاص احمد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×