غزل
نقص پیرایۂ اظہار میں رہ جاتا ہے
سایہ ہوتے ہوئے دیوار میں رہ جاتا ہے
موت لحظہ بھی نہیں دیتی نگل جانے کا
صید شاہین کی منقار میں رہ جاتا ہے
خواہ جتنا اثرانداز ہو دل والوں پر
آخرش حُسن بھی آثار میں رہ جاتا ہے
اک نظر دیکھیے قاتل کی پشیمانی سے
زخم تو وہ ہے جو تلوار میں رہ جاتا ہے
اُس کی محفل میں نگاہیں نہ اٹھانا ورنہ
جو مگن رہتا ہے دیدار میں رہ جاتا ہے
ڈوب جاتی ہے ندامت کے بھنور میں لیکن
کوئی دھبّہ مری دستار میں رہ جاتا ہے
حماد رضا فطرس