نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
تیرا وجود ہے اب صرف داستاں کے لیے
پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا ہو گا
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے
غرض پرست جہاں میں وفا تلاش نہ کر
یہ شے بنی تھی کسی دوسرے جہاں کے لیے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار