نیر سعود
نیر مسعود افسانہ نگاری کے میدان میں اپنی مثال آپ ہیں۔ انھوں نے افسانے کا ایک منفرد اسلوب ایجاد کیا اور پھر اس انداز کو انتہائے کمال تک پہنچا دیا۔ ان کے انداز کی پیروی یا نقل ناممکن معلوم ہوتی ہے۔ افسانوں کی فضا اور ماحول، زبان اور بیان، کرداروں کی تشکیل اور بھید بھرا بیانیہ ان کے افسانوں کی امتیازی خصوصیات ہیں جو انھیں دوسرے افسانہ نگاروں سے منفرد ٹھہراتی ہیں۔ افسانہ نگاری، نیر مسعود کی زندگی میں دوسرے موڑ پر سامنے آتی ہے۔ اس سے پہلے وہ محقق، نقاد اور زبان و ادب کے عالم کے طور پر شہرت حاصل کر چکے تھے۔ نیر مسعود ۱۲ نومبر ۱۹۳۶ ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پروفیسر مسعود حسین رضوی ادیب کئی کتابوں کے مصنف اور لکھنو یونیورسٹی میں فارسی کے صدر شعبہ رہے۔ ابتدائی تعلیم لکھنو میں حاصل کرنے کے بعد نیر مسعود ۱۹۵۷ء میں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ فارسی سے وابستہ ہو گئے اور ۱۹۹۷ ء میں ریٹائر منٹ تک اسی شعبے سے وابستہ رہے۔ پی ایچ ڈی کا مقالہ انھوں نے رجب علی بیگ سرور کے بارے میں لکھا اور یہ کتاب آج بھی اپنے موضوع کا مستند حوالہ مانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ میر انیس کی مفصل سوانح اور تحقیق و تنقید کی بھی کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ غالب پر مضامین کا ایک مجموعہ شائع ہوا ہے۔ انھوں
نے کافکا کے افسانے اور معاصر ایرانی افسانوں کا ایک انتخاب بھی اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ نیر مسعود کے افسانوں کا پہلا مجموعہ سیمیا ۱۹۸۴ء میں لکھنو سے شائع ہوا اور چند سال بعد لاہور سے اس کی دوبارہ اشاعت ہوئی۔ افسانوں کا دوسرا مجموعہ عطر کافور 1990 ء میں اور تیسرا مجموعہ طاؤس چمن کی مینا ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔ ان کا تازہ ترین مجموعہ گنجفہ ہے جو ۲۰۰۸ء میں پہلے کراچی اور پھر لکھنو سے شائع ہوا۔ اپنے افسانوں کے بارے میں راقم الحروف سے ایک انٹرویو کے دوران نیر مسعود نے اپنے فن اور اس کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ان کو افسانے پڑھنے کا شوق بچپن سے تھا اور اس زمانے میں لکھنے کا بھی شوق ہوا۔ شروع کے افسانے انھوں نے تلف کر دیے، کیوں کہ وہ ان کے معیار پر پورے نہیں اترے۔ نصرت پہلا افسانہ تھا جو انھوں نے ۱۹۷۱ء میں مکمل کیا ، لیکن شمس الرحمن فاروقی کی زیر ادارت الہ آباد سے شائع ہونے والے اہم ادبی رسالے شب خون میں اس طرح شائع کروایا گویا یہ فارسی سے ترجمہ ہے۔ اشاعت کے بعد اصلیت ظاہر کی۔ اس کے بعد انھوں نے سیمیا مکمل کیا پ
جو اس سے پہلے شروع کر چکے تھے ۔ (محرابیں ، لاہور، ۱۹۹۲ء)۔ اسی طرح اپنے ادبی رجحانات اور فن کے بارے میں ساگری سین گپتا سے گفتگو کے دوران انھوں نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ پڑھنے والوں کو کہانی اچھی معلوم ہو ۔ میری ایسی بالکل کوئی خواہش نہیں کہ ان کے ذہن کو الجھایا جائے۔ مگر کسی بات کو بالکل واضح کر کے لکھنا اچھا معلوم نہیں ہوتا ۔ یعنی کوئی چیز لاؤڈ نہیں ہونا چاہیے…
اسی گفتگو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ نثر کی قوت کیا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا:
نشر کی قوت میرے نزدیک یہی ہے کہ اس میں شاعری سے کم کام لیا جائے …
وہ شاعری کے طور طریق کو نثر میں استعمال کرنے کے قائل نہیں ہیں اور اس کے بجائے یہ
سمجھتے ہیں کہ :
نثر کی اپنی قوت ہے۔ اس کی مدد سے لکھا جا سکتا ہے۔ بس یہ ہے کہ اس میں ذرا محنت کرنا
پڑتی ہے، غور کرنا پڑتا ہے.”
(اینوئل آف اردو اسٹڈیز، وسکانسن ، شماره ۱۳) نیر مسعود کے منتخب افسانوں کا انگریزی میں مجموعہ The Essence of Camphor کے نام سے پروفیسر محمد عمر میمن نے مرتب کیا جسے بہت پسند کیا گیا ۔ منتخب افسانوں کا دوسرا مجموعہ The Snake Catcher کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ نیر مسعود کو ہندوستان کے کئی ادبی اعزازات اور انعامات حاصل ہو چکے ہیں جن میں “سرسوتی سمان” بھی شامل ہے۔
نیر سعود