وقت ابھی پیدا نہ ہوا تھا تم بھی راز میں تھے
ایک سسکتا سناٹا تھا ہم آغاز میں تھے
ان سے پیار کیا جن پر خاموشی نازل کی
ان پر ظلم کیا جو بند اپنی آواز میں تھے
ہر قیدی پر آذادی کی حد جاری کر دی
ہونٹوں کا اعجاز ہوئے جو نغمے ساز میں تھے
حبس تھا کوئی صبح فروزاں ہونے والی تھی
شام قدم بوسی پر تھی سائے پرواز میں تھے
جس نے خون میں غسل کیا اور آگ میں رقص کیا
حیف کہ سارے ہنگامے اس کے اعزاز تھے
ساقی فاروقی