وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
پھر مجھے لے چلو ادھر دیکھو
دل خانہ خراب کی باتیں
واعظا چھوڑ ذکر نعمت خلد
کر شراب و کباب کی باتیں
مہ جبیں یاد ہیں کہ بھول گئے
وہ شب ماہتاب کی باتیں
حرف آیا جو آبرو پہ مری
ہیں یہ چشم پر آب کی باتیں
سنتے ہیں اس کو چھیڑ چھیڑ کے ہم
کس مزے سے عتاب کی باتیں
جام مے منہ سے تو لگا اپنے
چھوڑ شرم و حجاب کی باتیں
ذکر کیا جوش عشق میں اے ذوق
ہم سے ہوں صبر و تاب کی باتیں
ابراہیم ذوق