وہی جذبہ ‘ وہی نعرہ ہمارا

غزل

وہی جذبہ ‘ وہی نعرہ ہمارا
وہی منزل ‘ وہی رستہ ہمارا

کبھی مرکز تھا یہ لالہ رخوں کا
یہ گلشن تھا ‘ کبھی مہکا ہمارا

اسی کی ذات تھی مِصرِ محبت
اسی کا نام تھا طغرا ہمارا

یہ مَدفَن ہے شبابِ آرزو کا
یہ گھر ‘ یہ بے نشاں قصبہ ہمارا

اُسے ہوتی اگر ہم سے محبت
اچھا لگتا اُسے بُرا ‘ ہمارا

کیا جو درد کو مہمان دل کا
سخن میں نام پھر نکلا ہمارا

بَنا ‘ وحشت سراۓ دشتِ ہجراں
“یہ دل ‘ یہ بے نشاں کمرہ ہمارا”

کبھی آنکھوں میں کوئی آ کے ‘ طارق !
چُرا لے جائے گا سُفنہ ہمارا

طارق محمود طارق
جی سی یونی ورسٹی لاہور

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×