وہ وعدہ کر کے شب کو تو ہم سے نہاں رہے
بولے سحر پھر آئیں گے ، خاطر نشاں رہے
گر خیر خواہی آپ کو منظور ہے تو بس
ایسا ہو امتحان کہ پھر امتحاں رہے
دامن کشیدگی سے ترے یار حیف ہے
یاں چشم انتظار مری خوں فشاں رہے
میں اس سوا بساط میں رکھتا نہیں ہوں کچھ
بھیجا ہوں دل کو پاس ترے ارمغان رہے
کونین میں یہی ہے تمنا کہہ یا علی
چندا پہ حق کرم سے ترے مہرباں رہے
ماہ لقا بائی چندہ