پروفیسر آل احمد سرور
اردو تنقید پر پروفیسر آل احمد سرور کا یہ بڑا احسان ہے کہ آج سے کوئی پچاس سال پہلے جب تنقید میں دلچسپی لینے والوں کی گنتی براے نام تھی اپنے دلکش تنقیدی مضامین سے انھوں نے تنقید کا ذوق عام کیا اور ایک خشک مضمون کو خاص و عام میں مقبول بنا دیا۔ ان کے تنقیدی مضامین نے نئی نسل کو اپنے ادبی سرمایے کی طرف متوجہ کیا اور اس سے لطف اندوز ہونے کا ہنر سکھایا۔ انھیں بجا طور پر موجودہ دور کا سب سے بڑا نقاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ آئیے غور کریں کہ وہ کیا خصوصیات ہیں جنھوں نے سرور صاحب کو اس رتبے پر فائز کیا۔
منصف مزاجی پروفیسر سرور کی تنقید کی بنیادی خصوصیت ہے۔ منصف مزاجی اور غیر جانب داری کے ساتھ کسی فن پارے کے پرکھنے کو ہی ادبی تنقید کہتے ہیں۔ گروہ بندی اور ذاتی پسند و نا پسند کی یہاں گنجایش نہیں۔ سرور صاحب کی تنقید اس عیب سے پاک ہے۔ لطف یہ ہے کہ سرور صاحب ان کے ساتھ بھی انصاف کرتے ہیں جنھوں نے سرور صاحب کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ کلیم الدین احمد سرور صاحب کے بارے میں اس راے کا اظہار کرتے ہیں کہ معلوم نہیں کیوں سرور صاحب کچھ جھنجھلائے ہوئے ہیں۔ شاید انھیں احساس کمتری ہے اور یہ احساس کمتری کہتا ہے کہ تم نے ابھی تک کوئی مفصل کتاب کیوں نہیں لکھی وہ “ دستر خوان کی لکھی ہیں شہد کی مکھی نہیں۔ جب اردو تنقید میں کلیم الدین احمد کا مقام متعین کرنے کا وقت آتا ہے تو سرور صاحب انصاف کی ترازو سنبھال لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کلیم الدین احمد ہمارے چوٹی کے نقادوں میں سے ہیں۔ میں انھیں بہت اہم نقاد ہی نہیں، تنقید کا ایک بہت اچھا معلم بھی سمجھتا ہوں۔ نقاد کا کام صرف بت گری نہیں ، بت شکنی بھی ہے اور کلیم الدین احمد نے بہت سے بت توڑے ہیں ایک نے اپنے رویے سے اردو تنقید میں اپنا قد گھٹالیا دوسرے نے بڑھالیا۔ سرور صاحب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کو تنقید مانتے ہیں۔ دودھ کا پانی اور پانی کا دودھ کرنا ان کا شیوہ نہیں۔
ادب سے وفاداری تنقید کی بنیادی شرط ہے۔ ادب وعظ و نصیحت بن جائے یا فلسفہ و پیغام بن جائے مگر ادب نہ رہے تو ہمارے کس کام کا۔ جو تحریر ادب نہ رہے، ادبی تنقید اسے پرکھنے کی زحمت آخر کیوں کرے ؟ ادب کو پر کھنے کی پہلی کسوئی ادب ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کا یہ قول سرور صاحب نے متعدد جگہ دہرایا ہے اور اس سے مکمل اتفاق کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ” میں پہلے ادب میں ادبیت دیکھتا ہوں بعد میں کچھ اور ۔ گو یہ جانتا ہوں کہ ادب میں جان زندگی سے ایک گہرے اور استوار تعلق سے آتی ہے۔ میں ادب کا مقصد نہ ذہنی عیاشی سمجھتا ہوں نہ اشتراکیت کا پر چار” ادب اور زندگی کے محکم رشتے کی اہمیت کا سرور صاحب کو اعتراف ہے۔ ران ادب میں نظریے کی ضرورت کے بھی وہ قائل ہیں مگر ان کی راے ہے کہ نظریہ ثبت بن جائے اور اس کی پرستش ہونے لگے تو اس کا توڑنا ضروری ہے ۔ نظریے کی زنجیر سے نجات پائے بغیر ادب کا کارواں آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لکے ہیں ادب سیاسی ، مذہبی اور اخلاقی موضوعات سے مدد لیتا ہے ، لیتا رہا ہے مگر یہ مذہب کا خادم ہے نہ سیاست کا نقیب نہ اخلاق کا نائب۔ ادب ہر جائی ہے اور ادب کا ہر جائی پن ہی اس کی دولت ہے۔ یہ معلومات نہیں تاثرات عطا کرتا ہے، یہ علم نہیں عرفان دیتا ہے۔ یہ نظریہ نہیں نظر بخشتا ہے۔”
زندگی ہر دم بدلتی رہتی ہے اور اسی کے ساتھ ادب بھی۔ یہ فطرت کا تقاضا ہے اور اس کا خیر مقدم ضروری ہے۔ سرور صاحب نے ادب کے بدلتے ہوئے رجحانات کا ہمیشہ ہمدردی کے ساتھ مطالعہ کیا ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا۔ انقلاب روس کے نتیجے میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو سرور صاحب نے اس کو خوش آمدید کہا لیکن جب وہ شدت پسندی کا شکار ہوئی اور کمیونزم کے پر چار کو بھی ادب شمار کرنے لگی تو اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا، فن کار کی انفرادیت و آزادی کی وکالت کی اور شعر و ادب کے جمالیاتی پہلو کی اہمیت جتائی۔
ادب کی جمالیاتی قدریں پروفیسر سرور کو ہمیشہ بے حد عزیز رہی ہیں۔ ایلیٹ کی جس راے کا اوپر ذکر کیا گیا اس پر سرور صاحب نے یہ قابل قدر اضافہ کیا ہے کہ ادب ادب ہونے کے ساتھ کوئی فلسفہ و پیغام بھی رکھتا ہو تو یہ اس کی عظمت کی دلیل ہے۔ انھوں نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ فکر سے فن کو آب و تاب لتی ہے۔ مطلب یہ کہ سرور صاحب ادب کی افادیت و مقصدیت کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے مگر اس کی جمالیاتی قدروں سے دست بردار ہونے کو کسی طرح آمادہ نہیں۔ فرماتے ہیں “فن ان معنوں میں افادی نہیں ہے جن معنوں میں ہنر افادی ہے۔ فن حسن کاری کر کے مسرت اور مسرت کے ساتھ بصیرت عطا کرتا ہے۔ صرف فکر کی روشنی سے فن کی محفل میں چراغ نہیں جل جاتے۔ فن یہاں ایک فانوس ہے جو شرع کی روشنی کو حسین اور دل پذیر بناتا ہے۔ شعر و ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے سب سے پہلے جس چیز پر ان کی نظر ٹھرتی ہے وہ اس کا جمالیاتی پہلو ہے۔ کہتے ہیں ”میں ادب کے جمالیاتی پہلو کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔
اعتدال و توازن بقول نورالحسن نقوی پروفیسر سرور کی تنقید کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے جو ادبی حلقوں میں خاصی موضوع بحث رہی ہے۔ مگر انصاف کی بات ہے کہ ان کی تنقید جناب شیخ کا نقش قدم نہیں جو یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ دراصل ان کے نزدیک تنقید نہ وکالت ہے نہ عدالتی فیصلہ نقاد مفتی نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ فتوے صادر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ عموماً وہ تصویر کے ونوں کرخ پیش کر کے فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ خوبیوں کا ذکر زیادہ اور خامیوں کا ذکر کم کرتے ہیں کیونکہ وہ تنقید کو گلستاں میں کانٹوں کی تلاش نہیں انتے۔ شدت اور انتہا پسندی کا ان کی تنقید میں گزر نہیں۔ وہ ادب کو خانوں میں تقسیم کر کے نہیں دیکھتے اور یہی وجہ ہے کہ قدیم وجدید کی بحث میں بھی اُن کا ذہن صاف ہے۔۔ نہ اس کے پرستار ہیں نہ اُس کے نہ اس سے بیزار ہیں نہ اُس سے جہاں حسن و تکمیل دیکھتے ہیں ، سراہتے ہیں۔”
مطالعے کی وسعت نے پروفیسر سرور کی تنقید میں بہت وزن پیدا کردیا ہے۔ ان کا بیشتر وقت یا مطالعے میں گزرتا ہے یا غور و فکر میں۔ یہ مطالعہ صرف اردو ادب تک محدود نہیں۔ انگریزی ادب سے ان کی وابستگی بہت گہری ہے۔ اردو سے پہلے انھوں نے امتیاز کے ساتھ انگریزی ادب میں ایم۔ اے کا امتحان پاس کیا تھا اور اس کے معلم مقرر ہوئے تھے۔ آئی۔ اے۔ رچرڈز اور ٹی ایس ایلیٹ سے انھیں ذہنی مناسبت ہے اور ان کی تنقیدی آرا کو وہ اکثر اپنے تنقیدی مضامین میں پیش کرتے ہیں۔ لوکاچ اور ٹیری اینگلٹن کا بھی ان پر گہرا اثر ہے۔
مطالعے کی وسعت اور غور و فکر کی عادت کا ہی نتیجہ ہے کہ زیر تنقید ادب رہ پارے کو وہ مختلف زاویوں سے دیکھتے اور پر کھتے ہیں۔ اس لیے ان کی تنقید ایک برخی نہیں۔ شعر و ادب کے تمام پہلووں پر ان کی نظر رہتی ہے لیکن فن کار سے زیادہ فن ان کی توجہ کا مرکز رہتا ہے اور انھیں خاص طور پر ان قدروں کی تلاش رہتی ہے جو کسی فن پارے کی آفاقیت اور ابدیت کی ضامن ہیں۔ دل نشیں اسلوب سرور صاحب کے تنقیدی مضامین کی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ تنقید ایک خشک اور اوق مضمون ہے۔ کچھ خاص طبیعتیں ہی اس طرف مائل ہوتی ہیں اور ہمارے مزاج کو تو غزل نے اور بھی برباد کر دیا ہے۔ نئی نسل کا اس طرف متوجہ ہونا دشوار تھا۔ سرور صاحب نے ایسا شگفتہ انداز بیان اختیار کیا کہ ان کے تنقیدی افکار به آسانی قارئین کے ذہن نشین ہو گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بهت سی عبارتیں لوگوں کو ازبر ہو گئیں۔
ایسے اہل قلم کی تعداد کم نہیں جو فکر کی تہی دامانی پر نثر کی رنگینی و رعنائی کا پردہ ڈال دیتے ہیں۔ مگر سرور صاحب کا معالمہ اس کے برعکس ہے۔ ان کے مضامین کا مطالعہ کیجے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ مگران کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ قاری کو تنقیدی بصیرت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی سردر و انبساط بھی حاصل ہو۔ اس پر خیال بھی پوری طرح واضح ہو جائے اور وہ پورا لطف بھی اٹھائے۔ اس لیے ان کا اسلوب سادہ ہونے کے ساتھ دل نشیں بھی ہوتا ہے گویا اس میں ادبی شان بھی پائی جاتی ہے۔
شعر و ادب سرور صاحب کا شوق ہے اور درس و تدریس ان کا پیشہ ۔ انھوں نے دونوں کے ساتھ انصاف کیا۔ معلمی کے پیشے کا انھوں نے ہمیشہ احترام کیا۔ چنانچہ ہمیشہ اپنی بات کو صاف اور سلجھے ہوئے انداز میں کہنے کی کوشش کی اور قاری کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ ان کی نثر کا انداز ایسا ہے کہ بات کے سمجھنے میں کبھی دشواری پیش نہیں آتی۔ ہر بات ذہن نشین ہو جاتی ہے اور لطف و لذت اس کے سوا حاصل ہوتے ہیں۔
تنقید کیا ہے، ادب اور نظریہ نئے اور پرانے چراغ ، تنقیدی اشارے ، نظر اور نظریے ، مسرت سے بصیرت تک، دانش اور اقبال اور فکر روشن ان کی تنقیدی
تصانیف ہیں۔
تحریر از ڈاکٹر سنبل نگار