کاہے کو دل اے عشق ترے غم سے بچے گا
اب ہم نہ بچائیں گے نہ یہ ہم سے بچے گا
لے لے گی دل ان کے رخ روشن کی تجلی
بالفرض جو ایں گیسوئے پر خم سے بچے گا
حسرت کوئی کتنا ہی چھپائے کی بچائے
دل ایک نہ اس فتنہ عالم سے بچے گا
حسرت موہانی
کاہے کو دل اے عشق ترے غم سے بچے گا
اب ہم نہ بچائیں گے نہ یہ ہم سے بچے گا
لے لے گی دل ان کے رخ روشن کی تجلی
بالفرض جو ایں گیسوئے پر خم سے بچے گا
حسرت کوئی کتنا ہی چھپائے کی بچائے
دل ایک نہ اس فتنہ عالم سے بچے گا
حسرت موہانی
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ