کرشن چندر
ہمارے افسانہ نگاروں میں کرشن چندر کا رتبہ بہت بلند ہے۔ ان کا یہ کارنامه نا قابل فراموش ہے کہ اردو افسانے کو انھوں نے ایک نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کیا۔ اس میں ایسی حسن کاری پیدا کی جس نے لاکھوں دلوں کو موہ لیا اور ایک عرصے تک افسانہ نگار ان کے طرز کی پیروی کرتے رہے۔ اپنی زندگی ہی میں انھیں وہ لازوال شہرت حاصل ہو گئی جو کم فن کاروں کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی کہانیوں کے ترجمے نہ صرف علاقائی زبانوں بلکہ متعدد بدیسی زبانوں میں بھی ہو چکے ہیں اور یہ ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔
: اشتراکی نقطہ نظر کرشن چندر کے فن پر حاوی ہے اور وہ اشتراکیت کو دنیا کے درد کی دوا خیال کرتے ہیں۔ لیکن ان کی انسان دوستی اتنی پختہ اور انداز پیشکش اتنا دلکش ہے کہ اشتراکیت سے نفرت کرنے والے بھی ان کے افسانوں کو سراہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دراصل وہ اشتراکیت کے نہیں بلکہ انسانیت کے پجاری ہیں۔ دنیا میں ظلم ، زیادتی، زبردستی نا انصافی دیکھ کر ان کے دل میں بغاوت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور ان زیادتیوں کو مٹانے کے لیے جو بھی سینہ سپر ہو کرشن چندر اس کے ہم نوا ہو جاتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ان کا قلم زیادہ بے باک ہو جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ مظلوم انسان ہی ان کے افسانوں کا موضوع ہے۔
: حقیقت پسندی کا گر انھوں نے پریم چند سے سیکھا تھا۔ پریم چند نے اردو افسانے میں زندگی سے خلوص کی جو روایت قائم کی تھی کرشن چندر نے اسے بہت آگے بڑھایا۔ پریم چند کی طرح انھوں نے بھی اپنی کہانیوں کا مواد براہ راست زندگی سے ہی حاصل کیا۔ کرشن چندر کی افسانہ نگاری کا آغاز اس زمانے میں ہوا جب دنیا ایک اقتصادی بحران سے گزر رہی تھی۔ قحط فسادات، تقسیم ملک کے مسائل یہ ، سب وہ چیزیں تھیں جو انھوں نے بہت قریب سے دیکھیں اور ان کا اثر قبول کیا۔ ء میں سیاسی قیدیوں کی حمایت میں کلکتہ میں عورتوں نے ایک جلوس نکالا۔ اس جلوس پر گولیاں چلائی گئیں۔ اس واقعے سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنا افسا “بر میترا لکھا۔ ۱۹۵۴ء میں بمبئی کے ٹکسٹائل ملوں میں ہڑتال ہوئی۔ سرکار نے ہڑتالی مزدوروں پر گولی چلائی۔ کرشن چندر نے افسانہ ” پھول سرخ ہیں “ لکھ کر اس حادثے کو امر کردیا۔ ایک بیمار انقلابی رہنما کو بستر علالت سے کھینچ کر جیل لے جایا گیا اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ مرنے والے ساتھی کی مسکراہٹ افسانہ لکھ کر انھوں نے اس رہنما کو حیات دوام بخش دی۔ ” بت جاگتے ہیں “ آزادی کے بعد کے اس زمانے کی یادگار ہے جب بمبئی میں قلم اور زبان پر مہر لگادی جاتی ہے۔
،،
ملالہ گھسیٹا رام پناہ گزیں عورتوں کے درد ناک کاروبار کی داستان ہے۔
رومانیت کے راستے سے گزر کر ہی کرشن چندر حقیقت نگاری کی منزل تک پہنچے تھے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب ان پر رومانیت کا غلبہ تھا اس وقت بھی وہ ستی جذباتیت کا شکار نہیں ہوئے۔ بقول آمنہ ابوالحسن ان کے رومانی دور کی کہانیاں بھی ایک ایسا حیرت انگیز موڑ لے لیتی ہیں کہ پڑھنے والا اچھے میں پڑ جاتا ہے۔ وہ حزنیہ ٹریجڈی) اور طربیہ (کامیڈی دونوں سے ماورا ہو جاتے ہیں کیونکہ حقیقی زندگی نہ ٹریجڈی ہے نہ کامیڈی بلکہ ایک سنگین واقعہ ہے۔ کرشن چندر کی ان کہانیوں میں رقت بھی نظر نہیں آتی کیونکہ انھوں نے کسی بلندی یا دوری سے انسانوں کا مشاہدہ نہیں کیا بلکہ ان کے درمیان رہ بس کر ان کی زندگی کی مکمل عکاسی کرتے رہے۔ اس عکاسی میں ان کا بے رحم تنقیدی نقطہ نظران کی رہنمائی کرتا رہا لیکن ان کی تنقیدی نظر بے رحم ہوتے ہوئے بھی کبھی مردم بیزار نہیں رہی ۔
کشمیر کی حسین وادی میں کرشن چندر کی عمر کا ابتدائی حصہ گزرا اور ان کے رگ و پے میں اس وادی کے مناظر اور یہاں کا حسن سرایت کر گیا۔ ساری زندگی وہ جن بن مناظر کی تصویر کشی کرتے رہے ان کا نقش کشمیر کے زمانہ قیام میں ہی ان کے
دل و دماغ پر بیٹھ گیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح وہ ساری زندگی کشمیر کے حسن کو نہیں بھلا سکے اسی طرح یہاں کی غربت بھی ہمیشہ ان کا تعاقب کرتی رہی۔ درست کہا گیا کہ جہاں وہ اپنی بالکونی سے گلمرگ کی شفق کا منظر دیکھ کر خوش ہوتا ہے وہاں وہ فردوس” کے بڑے بہشتی عبداللہ کے لڑکے کو نہیں بھولتا جس کا نام غریب ہے اور جو اس وادی کی اس وقت کی غربت افلاس اور جہالت کا ایک نمائندہ ہے۔
منظر نگاری میں کرشن چندر کو بڑی مہارت حاصل ہے۔ ان کی مقبولیت کا شاید سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ان کا قلم جیتے جاگتے منظر پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ قاری کو ہمیشہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی منظر کا حال نہیں سُن رہا بلکہ وہاں موجود ہے اور اس سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ خوشنما رنگ اور کیف اور نغمے ان کے مناظر میں جان ڈال دیتے ہیں اور ایسے موقعوں پر ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ فکشن نہیں لکھ رہے شاعری کر رہے ہیں۔ منظر نگاری کرتے ہوئے ان کا قلم زیادہ
، جذباتی ہو جاتا ہے۔ مثلاً کالا سورج کا یہ منظر دیکھیے۔۔ نیچے وادی میں ندی کے کنارے پھل دار درختوں کے مرغزار تھے اور بید مجنوں کے گھنیرے کنج تھے، جن کی لانی مخروطی ڈالیاں دور تک پانی میں جھکی ہوئی چلی گئی تھیں۔ اور دور تک دیکھنے میں ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے ندی کے کنارے کنارے الھڑو ساتی دوشیزا میں سرجھکائے، زلفیں بکھرائے اپنی
انگلیوں کی حنائی پوروں سے پانی میں کھیل رہی ہوں۔”
کرشن چندر کی منظر نگاری کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ حسن کی تصویر کشی کرتے ہوئے بھی زندگی کی بدصورتی کو فراموش نہیں کرتے۔ مطلب یہ کہ حسن کے پہلو بہ پہلوانھیں مظلوموں کی بد نصیبی اور قسمت کے ماروں کی غریبی یاد آتی ہے۔ ”بالکونی میں عبداللہ کے مرنے کا ذکر ان الفاظ میں ہوتا ہے : عبد اللہ آج کیوں مرا؟ ایسی خوبصورت چاندنی رات میں وہ صاحب لوگوں کے لیے پانی کی بالٹیاں بھرتے بھرتے مر گیا۔ کیا وہ اپنے کھیتوں میں، اپنے چھوٹے سے باغیچے میں اپنے مٹی کے گھر میں نہیں مر سکتا تھا۔۔۔۔ ایڑیاں رگڑتے رگڑتے بھونے سپنے دیکھتے دیکھتے مر گیا ۔ ” شاید اسی لیے آل احمد سرور یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ کرشن چندر دراصل شاعر ہے جو اس رنگ و بو کی دنیا میں لا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے ہندوستان کی بدصورتی اور حسن دونوں کو گلے لگایا۔”
عورت کو کرشن چندر کی محبوب ترین شے اور ان کے افسانوں کا محور کہا گیا ہے اور درست ہی کہا گیا ہے۔ دراصل عورت حسن کا ایک روپ ہے اور کرشن چندر کو حسن عزیز ہے وہ پھولوں میں ہو پرندوں میں ہو، منا ظر فطرت میں ہو یا انسان کی شکل میں۔ لیکن حسن کے ساتھ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا بد صورتی بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی۔ “سور سیلی تصویر ” کی اپانچ بڑھیا ” شہزادہ” کی ” سدھا، تائی ایسری میں لوٹ یہ سب بھی کرشن چندر کی نظروں سے اوجھل
نہیں ہو سکے۔ عورت کرشن چندر کو خاص طور پر اس لیے عزیز ہے کہ وہ سرتاپا ممتا ہے۔ مثلا یہ عبارت دیکھیے اور غور مجھے ” دیہاتی عورت نے اپنی گود میں کھلتے ہوئے بچے کو دیکھا اور ہوتے ہوئے اپنے بٹن کھولنے لگی۔ سفید دودھ بھری چھاتی بلاؤز سے یوں نکلی جیسے گہن سے چاند نمودار ہوتا ہے۔ بچہ خوشی سے ہمکنے لگا ۔”
طرز تحریر نے کرشن چندر کے افسانوں میں جان ڈال دی ہے۔ یہ ان کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ طاقت اس لیے کہ ان کی مقبولیت کا سبب ان کا دلکش طرز ادا بھی ہے اور کمزوری اس لیے کہ جدید اصول تنقید کے مطابق وہ زبان جو شعر بن جائے اور قاری کی توجہ کو اپنے اندر جذب کرلے فکشن کی زبان نہیں ہو سکتی۔ کرشن چندر نشر نہیں لکھتے شعر رقم کرتے ہیں۔ کرشن چندر کے اسلوب نگارش کے بارے میں سردار جعفری فرماتے ہیں :
” سچی بات یہ ہے کہ کرشن چندر کی نثر پر مجھے رشک آتا ہے۔ وہ بے ایمان شاعر ہے جو افسانہ نگار کا روپ دھار کے آتا ہے اور بڑی بڑی محفلوں اور مشاعروں میں ہم سب ترقی پسند شاعروں کو شرمندہ کر کے چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے ایک ایک جملے اور فقرے پر غزل کے اشعار کی طرح داد لیتا ہے اور میں دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوں کہ اچھا ہوا اس ظالم کو مصرع موزوں کرنے کا سلیقہ نہ آیا ورنہ کسی شاعر کو پنپنے نہ دیتا۔“ نامانوس ثقیل الفاظ سے وہ گریز کرتے ہیں، نرم سبک اور شیریں الفاظ پر ان کی نظر نصرتی ہے۔ استعارہ و تشبیہ سے وہ اپنی تحریروں میں بہت کام لیتے ہیں۔ ان کی شاعرانہ زبان پر اکثر اعتراضات ہوتے رہے مگریہی وہ وصف خاص بھی ہے جس کی اکثر نوجوان افسانہ نگار تقلید بھی کرتے رہے۔
مع طنز نگاری میں کرشن چندر کا قلم بے مثال جو ہر دکھاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں خالص ظرافت کی مثالیں بھی ملتی ہیں مگر وہ کم ہیں۔ طنر زیادہ ہے اور اس حربے کو وہ اصلاحی مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ شہری زندگی کے بارے میں یہ راے کہ شهری زندگی کا آسمان بہت تنگ ہوتا ہے اور زمین بھی نپی تلی۔ وہاں نہ برفانی چوٹیاں ہوتی ہیں نہ سرسبز مرغزار – ذیشی تو ایک عجائب گھر میں رکھے جانے کے لائق ہے نہ کہ تمہاری بیوی ہونے کے لایق اور پھر آج کل کی شادی میں محبت کو کیا تقسیم ہند سے متعلق افسانوں میں طئر کی نشتریت اور بھی زیادہ ہے۔ یہ افسانے ۱۹۴۷ء کے فسادات اور ان کی وحشت و بربریت سے متعلق ہیں۔ خود کرشن چندر کا بیان ہے کہ یہ کہانیاں انتہائی غم و غصے کے عالم میں لکھی گئیں۔ ان میں سے بعض کہانیاں مختلف رسالوں کے ایڈیٹروں نے ناقابل اشاعت کہہ کے لوٹادیں۔ ان میں طر بہت شدید ہے اور ہندوستان پاکستان کے خود غرض رہنما زیادہ تر اس طنز کا نشانہ
بنے ہیں۔ ہے اس مضمون کو ہم پروفیسر احتشام حسین کی اس رائے پر ختم کرتے ہیں :
کرشن چندر کا شعور سب سے زیادہ تیز سب سے زیادہ جاندار اور سب سے زیادہ لطیف ہے۔ ان کے شعور کی تیزی یہ ہے کہ وہ کبھی پرانے نہیں ہوتے۔ ان کا جاندار ہونا یہ ہے کہ ان کے افسانے زندگی کے سرجیون سوتوں سے رس چوستے ہیں اور اس کی لطافت کا اظہار ان کے انداز بیان ان کے ہلکے پھینکے اشاروں اور کنایوں ان کے اظہار کی روانی شعریت اور اثر انگیزی میں ہوتا ہے۔ یہ خوبیاں ایسی ہیں جو افسانہ نگاری کے ہر پہلو پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ آخر ایک فن کار کو اس سے زیادہ کیا چاہیے کہ اس کے مواد کی شگفتگی، اس کے طرز اظہار میں باقی رہ جائے۔ اس کے موضوع کی گہرائی اس کے بیان میں جھلک اٹھے۔ اس کی کمی ہوئی کہانی کی لطافت پڑھنے والے کو ہر طرف سے گھیر لے۔ کرشن چندر کے زیادہ تر افسانوں میں یہ خصوصیتیں پائی جاتی ہیں۔ کرشن چندر کو یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ ان کے افسانے پڑھنے کے بعد گہرے رنگ کے مضبوط دھاگوں سے بنے ہوئے رنگین کپڑے کا خیال آتا ہے جس پر مناع کی چابکدستی نے رنگوں کا خیال رکھ کر پھول بنائے ہیں ۔”