کشاد عقده دشوار
وا ہوا باب علم جب، گھل گئے سارے راز تب
عقده حشر و نشر سب، رمز مکان و لامکاں
عالم سوز و ساز میں ہم کو عزیز تر وہ بزم
جنبش ابروئے علی فیصلہ ساز ہو جہاں
جہد دوام کے لیے خون سے لکھ دیا نصاب
آپ نقیب حریت، شعله قلب عاشقاں
اہل ستم ہیں مضطرب، خوف زدہ ہیں شہریار
وجد میں بے امان ہیں، رقص میں سارے بے نشاں