کوئی بلبل چہکتی نہیں ہے
دل کی کھیتی مہکتی نہیں ہے
لاکھ کوشش کی ، اہلِ ہنر نے
پر، طبیعت سنبھلتی نہیں ہے
گل بدن! بے خراماں گلوں میں
گل سے خوشبو نکلتی نہیں ہے
مہ جبیں! کیا سنبھالوں میں تجھ کو
دل کی حالت سنبھلتی نہیں ہے
میری عادت ہے وحشت میں رہنا
میری عادت بدلتی نہیں ہے
سچ بتاؤ مرے دل کی حالت
میرے غم سے جھلکتی نہیں ہے ؟
رو بہ رو تجھ کو دیکھوں نہ جب تک
جانِ جاں! جاں نکلتی نہیں ہے
میرے دل بر کی تصویر طارق
میرے شعروں میں ڈھلتی نہیں ہے
طارق محمود طارق