کیا ملیے ایسے لوگوں سے جن کی فطرت چھپی رہے
نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے
خود سے بھی جو خود کو چھپائیں، کیا اُن سے پہچان کریں
کیا ان کے دامن سے لپٹیں، کیا ان کا ارمان کریں
جن کی آدھی نیّت اُبھرے، آدھی نیّت چھپی رہے
نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے
جِن کے ظلم سے دکھی ہے جنتا، ہر بستی ہر گاؤں میں
دَیَا دھرم کی بات کریں وہ بیٹھ کے سجی سبھاؤں میں
دان کا چرچہ گھر گھر پہنچے، لوٹ کی دولت چھپی رہے
نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے
دیکھیں ان نقلی چہروں کی کب تک جے جے کار چلے
اُجلے کپڑوں کی تہہ میں کب تک کالا سنسار چلے
کب تک لوگوں کی نظروں سے چھپی حقیقت چھپی رہے
نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے