ردیف زاے معجمہ
کیا ہوش رُبا ہیں تیری تلوار کے انداز
سیکھی ہے یہ شاید تیری رفتار کے انداز
اک جلوے مین غش کر گئے اے حضرت موسیٰ
ہوتے ہیں یہی طلب دیدار کے انداز
ہنگام غضب منھ میں کرتی ہو لغزش
ہیں محتسب شہر میں مر خوار کے انداز
طوبے کے تلے برسوں ہی فردوس میں بیٹھے
بائے نہ ترے سایہ دیوار کے انداز
کیا ناز میں صاحب تمہیں یکتا بے جہاں ہو
دیکھو تو ذرا اور بھی دو چار کے انداز
بوسہ کوئی مانگے تو نہیں کہتے ہیں ہنسکر
انگار میں بھی ماف ہیں اقرار کے انداز
کس شوق سے ملتا ہیں خنجر قاتل
ظالم کی کھنچاوت مین بھی ہے پیار کے انداز
جب چو کڑیاں بھرتے ہوئے جاتے ہیں آہو
یاد آتے ہیں مجکو تیری رفتار کے انداز
نصاف تو فرمایئے کیونکر میں اوتھاون
ہر بار کے ناز یہ ہر بار کے انداز
آنکھیں تہ خنجر بھی ہیں دیدار کی طالب
دیکھو تو ذرا طالب دیدار کے انداز
ہر موج سے ایک لخزش مستانہ ہے پیدا
ہین آب رواں میں تیری رفتار کے انداز
کن آنکھوں سے دیکھوں میں نزاکت رگ گل کی
پھرتے ہیں نظر میں کمر یار کے انداز
عیسیٰ میں تیری چال ناز کہاں مین
ہاں باتوں میں البتہ ہیں گفتار کے انداز
گھبرا کے مسیحا جو چلا ہے سوئے گلشن
اچھے نہیں کچھ نرکس بیمار کے انداز
کہتی ہے امیر اس سے اجل میرے سرہانے
اچھا نہیں عیسے ترے بیمار کے انداز
امیر مینائی
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار