گل بیمار
لال گلاب
تو بیمار ہے
وہ نادیدہ بھنورا
جو راتوں میں
غوغا کرتی آندھی میں
اڑتا پھرتا ہے
اس نے تیرے
سرخ عیش کا بستر
پالیا ہے
اور اس کا تاریک پراسرار عشق
تیری زیست برباد کر رہا ہے
ولیم بلیک
ترجمہ از شمس الرحمن فاروقی
گل بیمار
لال گلاب
تو بیمار ہے
وہ نادیدہ بھنورا
جو راتوں میں
غوغا کرتی آندھی میں
اڑتا پھرتا ہے
اس نے تیرے
سرخ عیش کا بستر
پالیا ہے
اور اس کا تاریک پراسرار عشق
تیری زیست برباد کر رہا ہے
ولیم بلیک
ترجمہ از شمس الرحمن فاروقی
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ