ہرے پانی میں جب ہوتی ہے افزائش ہماری
برستی ہے کبودی آنکھ سے بارش ہماری
اندھیری رات میں اک دم بھڑکنا جانتی ہے
دیے کی لو سے مس ہوتی ہوئی خواہش ہماری
ہم اپنی خاک سے ہمزاد اٹھانا چاہتے ہیں
ابھی تک آئینہ خانوں میں ہے کوشش ہماری
بنفشی پھول دروازوں میں الجھے رہ گئے ہیں
پڑی ہے خوان پہ سوکھی ہوئی کشمش ہماری
فرامش گاہ میں رکھی رہیں گی الجھنیں سب
کرے گی رات بھر اک نرم خو مالش ہماری