ہر شب ہے گزری یاد میں جس گل عذار کی
یک روز لی خبر بھی نہ اس بیقرار کی
کچھ کچھ نظر جو آتی ہے سیماب میں تڑپ
سیکھی ہے طرز دل سے مرے اضطرار کی
روز ازل جو جام محبت پلا دیا
سرخی رہی ہے آنکھوں میں اب تک خمار کی
خون جگر یہ آنکھوں سے امڈا کہ بہہ چلا
تس پر بھی یہ جھڑی نہ تھی اشکبار کی
چندا کو اب دکھائیے دیدار یا علی
طاقت نہیں رہی ہے اسے انتظار کی
ماہ لقا بائی چندہ