ہر پردہ ہستی میں جب تو متشکل ہے
حیراں ہوں ، میں جلوہ پھر کون سا باطل ہے
صحرا ہے نہ بستی ہے ، دریا ہے نہ ساحل ہے
جو کچھ نظر آتا ہے اک شعبدہ دل ہے
کیا چیز ہے کل عالم ، کیا چیز مرا دل ہے ؟
حیرت کا اک آئینہ حیرت کے مقابل ہے
حیراں ہوں کہ یہ آخر کیوں بیچ میں حائل ہے
میرا ترا رشتہ تو بے واسطہ دل ہے
جگر